Tuesday, 20 November 2018
Shikwa jwb e shikwa
شکوہ جوابِ شکوہ شکوہ : عمرِ درازی کی صنم بس وحشتیں ہیں عشق میں ہر ایک لمحہ جان لیوا دہشتیں ہیں عشق میں دیکھا جو میں نے جھانک کر حیرت کدوں میں بارہا دیکھی نہیں ہیں باخدا جو حیرتیں ہیں عشق میں ان کی حزینِ داستاں سن کر بڑا ہی دکھ ہوا ساری کی ساری لٹ گئیں جو راحتیں ہیں عشق میں وعدہ وفا کی آڑ میں کرتے رہے بیوپار جو ہیں تخمِ ناہنجار لوٹیں عصمتیں ہیں عشق میں بے چینیوں کا طبل بجتا ہی رہا دل میں مرے یہ جھوٹ ہے کہتے ہیں جو کہ راحتیں ہیں عشق میں مقتل میں جا کے روٹھ بیٹھے ہیں مرے ارمانِ دل پالا تھا ہم کو شوق سے کہ چاہتیں ہیں عشق میں ان کی جفاوؑں کا صنم جب بھی ہوا ہے تذکرہ دلبر گماں ہوتا رہا بس نفرتیں ہیں عشق میں جوابِ شکوہ : عمرِ درازی کی صنم بس راحتیں ہیں عشق میں ہر ایک لمحہ یار کی بس چاہتیں ہیں عشق میں حیرت کدوں میں جھانک کر دیکھا تو ہے تُو نے صنم حیران ہے جن سے جہاں وہ حاجتیں ہیں عشق میں کہتے نہیں اس کو حزیں یہ دلبری شیوہ نہیں دلدار پر کردو فدا جو راحتیں ہیں عشق میں بیوپار جو کرتے رہے جسموں پہ وہ مرتے رہے نفسِ طلب کی باخدا کب حاجتیں ہیں عشق میں دلدار کو دلدار سے فرصت کبھی ملتی نہیں اک پل قضا ہوتا نہیں وہ ساعتیں ہیں عشق میں پالا ہے جن کو شوق سے میرے جنونِ عشق نے ارمانِ دل وہ آج سارے قربتیں ہیں عشق میں جب بھی وصالِ یار کا دلبر گماں ہوتا رہا کامل یقیں ہوتا رہا کہ صحبتیں ہیں عشق میں
Sunday, 18 November 2018
گناہ نظم
گناہ زانیوں کے پاس نئی نئی دلیلیں ہیں نئے نئے الفاظ ہیں بے شمار جواز ہیں بدلتے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر یہ نئے قصے سناتے ہیں سوچ کے نئے زاویے تلاش کرتے ہیں اضطراب کا ایک ہی حل سوچتے ہیں بدبودار لمحات کو بستر کی سلو ٹوں میں سوۓ پوشیدہ تجربات کو شراب کے بُو میں گھول لیتے ہیں پھر اسُ لمحے تھوڑ ا سا سچ بھی بول لیتے ہیں گزرے لذت آشنا تجربات کا بھید بھی کھول لیتے ہیں کسی نئے بدن کی خوشبو میں گمُ میقاس الشباب سے پُر کیف لمحات تک شراب کے جام سے ناف تک راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں دلدل میں اُترتے قدموں کے واسطے کوئی جواز بھی سوچ لیتے ہیں حوا کے بیٹے بنت ِ حوا سے کھیل لیتے ہیں ۔۔۔۔ نادیہ عنبر لودھی اسلام آباد
غزل
غزل دیواروں پہ کیا لکھا ہے شہر کا شہر ہی سوچ رہا ہے غم کی اپنی ہی شکلیں ہیں درد کا اپنا ہی چہرہ ہے عشق کہانی بس اتنی ہے قیس کی آنکھوں میں صحرا ہے کو زہ گر نے مٹی گوندھی چاک پہ کوئی اور دھرا ہے عنبر تیرے خواب ادھورے تعبیروں کا بس دھوکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نادیہ عنبر لودھی اسلام آباد
Thursday, 15 November 2018
Tuesday, 6 November 2018
Dhoop Chaaon ka Mosam
کوئی دھوپ چھاؤں کا موسم ہو. اور مدھم مدھم بارش ہو💕 ہم گہری سوچ میں بیٹھے ہوں سوچوں میں سوچ تمھاری ہو💕 اُس وقت تم ملنے آجاؤ اور خوشی سے پلکیں بھاری ہو💕 ہم تم دونوں خاموش رہیں اور زباں پہ آنکھیں ہاوی ہو💕 تم تھام لو میرے ہاتھوں کو اور لفظ زباں سے جاری ہوں💕 میں تم سے محبت کرتی ہوں اور جذبوں میں سرشاری ہو💕 ہاتھوں کی لیکریں مل جائیں سنگ چلنے کی تیاری ہو💕 سب خوابوں کو تعبیر ملے اور ہم پر خوشیاں واری ہو💕 کوئی دھوپ چھاؤں کا موسم ہو اور مدھم مدھم بارش ہو💕
Monday, 5 November 2018
my poem
Maybe it's not a high-quality rhyme, but it's my first . sorry for the mistakes. I have been to many forums but I have not been looking for a forum so good that I will be happy, my colleague. I have met the forum and I became cheerful and I wanted to stay with you
Saturday, 3 November 2018
تم ابرِ گریزاں ہو
تم ابرِ گریزاں ہو میں صحرا کی مانند ہوں دو بوند جو برسو گے بے کار میں برسو گے ہے خشک بہت مٹی ہر سمت بگولے ہیں صحرا کے بگولوں سے اٹھتے ہوئے شعلے ہیں تم کھل کہ اگر برسو تو صحرا میں گلستاں ہو پر تم سے کہیں کیسے تم ابرِ گریزاں ہو جل تھل جو اگر کر دو تن من میں نمی بھر دو ہے خشک بہت مٹی پوری جو کمی کر دو پھر تم کو بتائیں گے تم میری محبت ہو لیکن تم تو ابرِ گریزاں ہو اور میں صحرا کی مانند ہوں تم ابرِ گریزاں ہو تم ابرِ گریزاں ہو
Subscribe to:
Posts (Atom)