Monday, 29 October 2018
hijab e rang
کتاب ِ عمر کے دلگیر باب میں مجھے مل یا میری نیند میں آ اپنے خواب میں مجھے مل مرے گماں پہ اتر پھر حنا کا رنگ لیے پھر اپنے بالوں کے دلکش گلاب میں مجھے مل مل ایک بار مجھے وقت کی حدوں سے پرے مل ایک بار تو اپنی جناب میں مجھے مل خدا کے ہونے کی تو بھی تو اک نشانی ہے کسی بھی رنگ کسی بھی حجاب میں مجھے مل بگُولہ بن کے ترے اِرد گِرد پھرنے لگوں کبھی تو دشت میں آ اور سراب میں مجھے مل سکوت ِ ذات سے چٹخے سماعتوں کے بدن کسی صدا کے چھلکتے حباب میں مجھے مل خرد خمیر ہوں حیرت کے باب میں مجھے چُن جنوں طلسم کی نمکیں شراب میں مجھے مل
Sunday, 28 October 2018
My stat of mind
My State of Mind" In the midst of a serious fight, I get reminded of this transcient life. Why do I coddle my ego and pride? Why do I hesitate to tell, they are my truest delight? I wanted to come forward. To express my love, apologise for my mistakes and let them know how much they are meant! But, then and there only, ‘Why me’ and ‘why can’t they’ was the question I posed to myself, And it instantly changed my mind. To choose between love and pride became a plight. And this is how I lost the most important battles of my life. Oh! I regret, I had time… but… I missed… A thousand occasions, I left, Thinking that a thousand more I will get. But life is not always the same, And now I deserve to be blamed. I wasted years thinking that I am selfish, This feeling of regret cannot be replenished. I then, made a promise to repent for my mistakes, To choose love and prevent all sort of heart aches. I started putting my emotions naked to the people I loved, And what they did? Took advantage of it, made me realise I am not their worth. Repent, Repent, Repent and Remorse! © Sadiya Jalal
Saturday, 27 October 2018
مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں
مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں لاکھ سمجھایا کہ اس محفل میں اب جانا نہیں خود فریبی ہی سہی کیا کیجئے دل کا علاج تو نظر پھیرے تو ہم سمجھیں کہ پہچانا نہیں ایک دنیا منتظر ہے اور تیری بزم میں اس طرح بیٹھے ہیں ہم جیسے کہیں جانا نہیں جی میں جو آتی ہے کر گزرو کہیں ایسا نہ ہو کل پشیماں ہوں کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں زندگی پر اس سے بڑھ کر طنز کیا ہوگا فراز اس کا یہ کہنا کہ تو شاعر ہے دیوانہ نہیں احمد فراز
Sunday, 21 October 2018
intakhab e Man
نفع کی صورت ہؤا ، جتنا بھی خمیازہ ہؤا ، غم سہا جاتا ہے کیسے، ہم کو اندازہ ہؤا ۔۔۔ زندگی درویش کی مانند ہی میں نے کاٹ دی جب سے مجھ پہ بند اُس کے گھر کا دروازہ ہؤا ۔۔۔ موسمٍ گل! تیرا آنا بھی سزا سے کم نہیں ، وقت نے جو بھر دیا تھا ، زخم پھر تازہ ہؤا ۔۔۔ فکر کا سیاح میرے جیتے جی لوٹا نہیں ، جو مرے احساس میں باقی تھا شیرازہ ہؤا ۔۔۔ ایسا لگتا ہے دُعا مقبول میری ہو گئ! آج اپنی حیثیت کا مجھ کو اندازہ ہؤا ۔۔۔ مصلحت کوشی تجھے منزل تلک لے جائے گی! روح کی گہرائیوں میں ایسا آوازہ ہؤا ۔۔۔ تیرے چہرے کی اُداسی وہ چھپا سکتا ہے اب ، آجکل ایجاد پارس ایسا بھی غازہ ہؤا ۔۔۔!
Dunia k hazaar mosam
کیا بات بتائیں لوگوں کی ۔۔۔۔ دنیا کے ہزاروں موسم ہیں لاکھوں ہیں ادائیں لوگوں کی!! کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں، دنیا کو سنانے کے قابل۔۔۔۔ کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں، بس دل میں چھپانے کے قابل۔۔۔۔ کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں، اک بار گئے تو آتے نہیں۔۔۔۔ ہم لاکھ بلانا بھی چاہیں، پرچھائیں بھی انکی پاتے نہیں۔۔ کچھ لوگ خیالوں کے اندر، جذبوں کی روانی ہوتے ہیں۔۔۔۔ کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح، پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں۔۔۔۔ کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں، کچھ لوگ کنارا ہوتے ہیں۔۔ کچھ ڈوبنے والی جانوں کو، تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں۔۔۔۔ کچھ لوگ چٹانوں کا سینہ، کچھ ریت گھروندہ چھوٹا سا۔۔۔۔ کچھ لوگ مثال ابر رواں، کچھ اونچے درختوں کا سایہ۔۔۔۔ کچھ لوگ چراغوں کی صورت، راہوں میں اجالا کرتے ہیں۔۔۔۔ کچھ لوگ اندھیروں کی کالک چہرے پر اچھالا کرتے ہیں۔۔۔۔ کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں، دو گام چلے اور رستے الگ۔۔۔۔ کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا، ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ۔۔۔۔
Tuesday, 16 October 2018
لفظوں کے تھکے لوگ
"لفظوں کے تھکے لوگ" ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے درد دل میں چھپا کے رکھتے ہیں آنکھ ویراں ہے اس طرح ان کی جیسے کچھ بھی نہیں رہا اس میں نہ کوئی اشک نہ کوئی سپنا نہ کوئی غیر نہ کوئی اپنا پپڑیاں ہونٹ پر جمی ایسی جیسے صدیوں کی پیاس کا ڈیرہ جیسے کہنے کو کچھ نہیں باقی درد سہنے کو کچھ نہیں باقی اجنبیت ہے ایسی نظروں میں کچھ بھی پہچانتے نہیں جیسے کون ہے جس سے پیار تھا ان کو کون ہے جس سے کچھ عداوت تھی کون ہے جس سے کچھ نہیں تھا مگر ایک بے نام سی رفاقت تھی سوکھی دھرتی کو ابر سے جیسے ایسی انجان سی محبت تھی رنگ بھرتے تھے سادہ کاغذ پر اپنے خوابوں کو لفظ دیتے تھے اپنی دھڑکن کی بات لکھتے تھے دل کی باتوں کو لفظ دیتے تھے اس کے ہونٹوں سے خامشی چن کو اس کی آنکھوں کو لفظ دیتے تھے چاندنی کی زباں سمجھتے تھے چاند راتوں کو لفظ دیتے تھے ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے اپنے جذبوں سے تھک گئے جیسے اپنے خوابوں سے تھک گئے جیسے دل کی باتوں سے تھک گئے جیسے اس کی آنکھوں سے تھک گئے جیسے چاند راتوں سے تھک گئے جیسے ایسے خاموشیوں میں رہتے ہیں اپنے لفظوں سے تھک گئے جیسے
جانے دیں گے؟
جون ایلیا زمانے بھر کو اداس کر کے خوشی کا ستیا ناس کر کے میرے رقیبوں کو خاص کر کے بہت ہی دوری سے پاس کر کے تمہیں یہ لگتا تھا جانے دیں گے ؟ سبھی کو جا کے ہماری باتیں بتاؤ گے اور بتانے دیں گے ؟ تم ہم سے ہٹ کر وصالِ ہجراں مناؤ گے اور منانے دیں گے ؟ میری نظم کو نیلام کر کے کماؤ گے اور کمانے دیں گے ؟ تو جاناں سن لو اذیتوں کا ترانہ سن لو کہ اب کوئی سا بھی حال دو تم بھلے ہی دل سے نکال دو تم کمال دو یا زوال دو تم یا میری گندی مثال دو تم میں پھر بھی جاناں ۔۔۔۔۔۔۔! میں پھر بھی جاناں ۔۔۔ پڑا ہوا ہوں ، پڑا رہوں گا گڑا ہوا ہوں ، گڑا رہوں گا اب ہاتھ کاٹو یا پاؤں کاٹو میں پھر بھی جاناں کھڑا رہوں گا بتاؤں تم کو ؟ میں کیا کروں گا ؟ میں اب زخم کو زبان دوں گا میں اب اذیت کو شان دوں گا میں اب سنبھالوں گا ہجر والے میں اب سبھی کو مکان دوں گا میں اب بلاؤں گا سارے قاصد میں اب جلاؤں گا سارے حاسد میں اب تفرقے کو چیر کر پھر میں اب مٹاؤں گا سارے فاسد میں اب نکالوں گا سارا غصہ میں اب اجاڑوں گا تیرا حصہ میں اب اٹھاؤں گا سارے پردے میں اب بتاؤں گا تیرا قصہ مزید سُن لو۔۔۔ او نفرتوں کے یزید سن لو میں اب نظم کا سہارا لوں گا میں ہر ظلم کا کفارہ لوں گا اگر تو جلتا ہے شاعری سے تو یہ مزہ میں دوبارہ لوں گا میں اتنی سختی سے کھو گیا ہوں کہ اب سبھی کا میں ہو گیا ہوں کوئی بھی مجھ سا نہی ملا جب خود اپنے قدموں میں سو گیا ہوں میں اب اذیت کا پیر ہوں جی میں عاشقوں کا فقیر ہوں جی کبھی میں حیدر کبھی علی ہوں جو بھی ہوں اب اخیر ہوں جی
اپنا تو یہی سرمایہ ہے
کیا حال سنائیں دُنیا کا کیا بات بتائیں لوگوں کی دنیا کے ہزاروں موسم ہیں لاکھوں ہیں ادائیں لوگوں کی کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں دنیا کو سنانے کے قابل کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں بس دل میں چھپانے کے قابل کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں اک بار گئے تو آتے نہیں ہم لاکھ بلانا بھی چاہیں پرچھائی بھی انکی پاتے نہیں کچھ لوگ خیالوں کے اندر جذبوں کی روانی ہوتے ہیں کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں کچھ لوگ کنارا ہوتے ہیں کچھ ڈوبنے والی جانوں کو تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں کچھ لوگ چٹانوں کا سینہ کچھ ریت گھروندہ چھوٹا سا کچھ لوگ مثال ابر رواں کچھ اونچے درختوں کا سایہ کچھ لوگ چراغوں کی صورت راہوں میں اجالا کرتے ہیں کچھ لوگ اندھیروں کی کالک چہرے پر اچھالا کرتے ہیں کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں دو گام چلے اور رستے الگ کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ کیا حال سنائیں اپنا تمہیں کیا بات بتائیں جیون کی اک آنکھ ہماری ہستی ہے اک آنکھ میں رت ہے ساون کی ہم کس کی کہانی کا حصہ ہم کس کی دعا میں شامل ہیں ہے کون جو رستہ تکتا ہے ہم کس کی وفا کا حاصل ہیں کس کس کا پکڑ کر دامن ہم اپنی ہی نشانی کو پوچھیں ہم کھوئے گئے کن راہوں میں اس بات کو صاحب جانے دیں کچھ درد سنبھالے سینے میں کچھ خواب لٹائے ہیں ہم نے اک عمر گنوائی ہے اپنی، کچھ لوگ کمائے ہیں ہم نے دل خرچ کیا ہے لوگوں پر جان کھوئی ہے غم پایا ہے اپنا تو یہی سرمایہ ہے اپنا تو یہی سرمایہ ہے
Thursday, 11 October 2018
Subscribe to:
Posts (Atom)