Monday, 31 December 2018
Monday, 24 December 2018
آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے
آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے، شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے پہلے مشہور تھی اپنی سنجیدگی، اب تو جب دیکھئے مسکرانے لگے ہم کو لوگوں سے ملنے کا کب شوق تھا، محفل آرائی کا کب ہمیں ذوق تھا آپ کے واسطے ہم نے یہ بھی کیا، ملنے جلنے لگے، آنے جانے لگے ہم نے جب آپ کی دیکھیں دلچسپیاں، آگئیں چند ہم میں بھی تبدیلیاں اک مصور سے بھی ہوگئی دوستی، اور غزلیں بھی سننے سنانے لگے آپ کے بارے میں پوچھ بیٹھا کوئی، کیا کہیں ہم سے کیا بدحواسی ہوئی کہنے والی جو تھی بات ہو نہ سکی، بات جو تھی چھپانی، بتانے لگے عشق بے گھر کرے، عشق بے در کرے، عشق کا سچ ہے کوئی ٹھکانا نہیں ہم جو کل تک ٹھکانے کے تھے آدمی، آپ سے مل کے کیسے ٹھکانے لگے جاوید اختر
نہ لو انتقام مجھ سے، مرے ساتھ ساتھ چل کے
کبھی شعر و نغمہ بن کے، کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے وہ مجھے ملے تو لیکن، ملے صورتیں بدل کر یہ وفا کی سخت راہیں، یہ تمہارے پائے نازک نہ لو انتقام مجھ سے، مرے ساتھ ساتھ چل کے وہی آنکھ بے بہا ہے جو غمِ جہاں میں روئے وہی جام جامِ ہے جو بغیرِ فرق چھلکے یہ چراغِ انجمن تو ہیں بس ایک شب کے مہماں تُو جلا وہ شمع اے دل! جو بجھے کبھی نہ جل کے نہ تو ہوش سے تعارف، نہ جنوں سے آشنائی یہ کہاں پہنچ گئے ہم تری بزم سے نکل کے کوئی اے خمار ان کو مرے شعر نذر کر دے جو مخالفینِ مخلص نہیں معترف غزل کے
عشق تیرا کمال می رقصم
ﻋﺸـﻖ ﺗﯿـــــــــﺮﺍ ﮐﻤﺎﻝ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ ﮨﺮ ﮔﮭﮍﯼ ﮨـــﮯ ﯾﮧ ﺣﺎﻝ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ ﺗﯿــــﺮﯼ ﻧﻔﺮﺕ ﮨــﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿـﺮﯼ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺁﯾﺎ ﺧـــــﯿـﺎﻝ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ ﺫﮐﺮ ﺗﯿــــﺮﺍ ﮨــﮯ ﻟﺐ ﭘﮧ ﻣﯿــﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﮨــــﮯ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺩﮬـــﻤﺎﻝ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ ﺩﺭﺩ ﺍﻟﻔﺖ ﺳـــــﮯ ﻧﺎﭼـــﻨﺎ، ﺭﺣﻤﺖ ﯾﺎ ﮨـــــــﮯ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﻭﺑﺎﻝ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﻗﯿـــﺪ ﺳـــــﮯ ﺭﮨﺎ ﮬﻮ ﮐﺮ ﮨﺮ ﻣﮩــﯿـﻨـﮧ ﻭ ﺳـــــــﺎﻝ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ ﺑﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﮏ ﮐــــﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺍ ﮬﻮﮞ، ﭘﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺑﺤﺎﻝ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ ﮨﻢ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮨﻮﮰ ﺳﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮬﻮ ! ﮨﺎﺋــــﮯ ﺗﯿــــــﺮﺍ ﺳـــﻮﺍﻝ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ ﺟﯿﺴـــﮯ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﯾﮧ ﺭﻭﺡ ﮐـﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺗﯿـــــﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭــﯿﮟ ﻏــﺰﺍﻝ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ ﭼﺎﻧﺪ ﺳﻮﺭﺝ ﮨﯿﮟ ﺭﻗﺺ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘــــﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮬﻮﮞ ﺑﺲ ﻧﻘــﺎﻝ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ ﻋﺸـــﻖ ﮐﮭﻮﻧـــــﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨــــﮯ ﺑﺎﺑﺎ ﺍﺱ ﻟﯿــــــــﮯ ﺑﻦ ﻣــــﻼﻝ ﻣﯽ ﺭﻗﺼﻢ.
میں ٹھیک ہاں
ﻣﯿﮉﯼ ﻣَﺮﺽ ﺩﯼ ﻓِﮑﺮ ﻃﺒِﯿﺐ ﻧﮧ ﮐﺮ ﻧﮧ ﺟﻮﮌ ﺩﻭﺍ ، ﻣﯿﮟ ﭨِﮭﯿﮏ ﮨﺎﮞ ﻧﮧ ﺷَﺮﺑﺖ ﻋﺮﻕ ﺍِﻧﺠﯿﮑﺸﻦ ﺩﮮ ﻧﮧ ﺑﻮﺗﻼﮞ ﭼﺎ ، ﻣﯿﮟ ﭨِﮭﯿﮏ ﮨﺎﮞ ﺗﯿﮉﮮ ﮐُﻞ ﻧُﺴﺨﮯ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﮔﺌﮯ ﻧﮧ ﺯﮨﻦ ﮐﮭﭙﺎ ، ﻣﯿﮟ ﭨِﮭﯿﮏ ﮨﺎﮞ ﺳﺎﮐُﻮﮞ ﻟﻮﮌ ﻧﺌﯿﮟ ﺗﯿﺮﯾﺎﮞ ﭘَﮭﮑِﯿﺎﮞ ﺩﯼ ﻣﯿﮑُﻮﮞ ﺳَﺠﻦ ﻣِﻼ ، ﻣﯿﮟ ﭨِﮭﯿﮏ ﮨﺎﮞ
Tuesday, 18 December 2018
Ishq mai koi raiyaat nahi milne wali
عشق میں کوئی رعایت نہیں ملنے والی سوچنے کی بھی اجازت نہیں ملنے والی حُسن قاضی ھے , محبت ھے وکیلوں میں سے اس عدالت سے ضمانت نہیں ملنے والی کوئی دُرہ , کوئی کوڑا , کوئی چابک لاءو ھم کو لفظوں سے نصیحت نہیں ملنے والی اپنی ھمت سے کوئی حشر بپا کر ڈالو مانگنے سے تو قیامت نہیں ملنے والی کام سمجھو گے تو پھر عشق نہ کر پاءو گے ایسے بے گار کی اجرت نہیں ملنے والی ملنا اگر ھو تو طبیعت کا بہانہ کیسا سچ ھے یہ , آپ کی نیت نہیں ملنے والی عشق جب ھو ھی گیا ھے تو تڑپنا کیسا اس سے زیادہ تو اذیت نہیں ملنے والی
Wednesday, 12 December 2018
Monday, 10 December 2018
Raah e zindagani
میں راہِ زندگانی پر قدم جب بھی بڑھاتا ہوں کہیں کانٹوں سے بچنا ہے کہیں دل کو کچلنا ہے کہیں اپنوں کی بے رخیاں کہیں غیروں کے طعنے ہیں میں تھک کر بیٹھ جاتا ہوں نگاہ اوپر اٹھاتا ہوں خدایا رستہ مشکل ہے میں ہمت کم ہی پاتا ہوں کہیں پھر پاس سے دل کے صدا اک خوب آتی ہے کہ راہیں جنّتوں کی کب بھلا آسان ہوتی ہیں ،،؟ کہیں صحرا کی تپتی ریت کہیں طائف کے پتھر ہیں کہیں اپنے ہی تلواریں لیے اس جاں کے در پے ہیں اگرچہ ہے بہت مشکل مگر اس راہ سے پہلے بھی کتنے لوگ گزرے ہیں انہی قدموں پہ چلنا ہے کہ پھر اک حسین منزل تمہاری منتظر ہو گی بس یہ یاد رکھنا تم منازل جب حسیں ہوں تو راہیں دشوار ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔
Sunday, 9 December 2018
Thursday, 6 December 2018
بیتاب ہیں، ششدر ہیں، پریشان بہت ہیں
بیتاب ہیں، ششدر ہیں، پریشان بہت ہیں کیوں کر نہ ہوں، دل ایک ہے، ارمان بہت ہیں کیوں یاد نہ رکّھوں تجھے اے دُشمنِ پنہاں! آخر مِرے سَر پر تِرے احسان بہت ہیں ڈھونڈو تو کوئی کام کا بندہ نہیں مِلتا کہنے کو تو اِس دور میں انسان بہت ہیں اللہ ! اِسے پار لگائے تو لگائے کشتی مِری کمزور ہے طوفان بہت ہیں دیکھیں تجھے، یہ ہوش کہاں اہلِ نظر کو تصویر تِری دیکھ کر حیران بہت ہیں ارمانوں کی اِک بھیڑ لگی رہتی ہے دن رات دل تنگ نہیں، خیر سے مہمان بہت ہیں یُوں ملتے ہیں، جیسے نہ کوئی جان نہ پہچان دانستہ نصیرؔ آج وہ انجان بہت ہیں
Saturday, 1 December 2018
Tuesday, 20 November 2018
Shikwa jwb e shikwa
شکوہ جوابِ شکوہ شکوہ : عمرِ درازی کی صنم بس وحشتیں ہیں عشق میں ہر ایک لمحہ جان لیوا دہشتیں ہیں عشق میں دیکھا جو میں نے جھانک کر حیرت کدوں میں بارہا دیکھی نہیں ہیں باخدا جو حیرتیں ہیں عشق میں ان کی حزینِ داستاں سن کر بڑا ہی دکھ ہوا ساری کی ساری لٹ گئیں جو راحتیں ہیں عشق میں وعدہ وفا کی آڑ میں کرتے رہے بیوپار جو ہیں تخمِ ناہنجار لوٹیں عصمتیں ہیں عشق میں بے چینیوں کا طبل بجتا ہی رہا دل میں مرے یہ جھوٹ ہے کہتے ہیں جو کہ راحتیں ہیں عشق میں مقتل میں جا کے روٹھ بیٹھے ہیں مرے ارمانِ دل پالا تھا ہم کو شوق سے کہ چاہتیں ہیں عشق میں ان کی جفاوؑں کا صنم جب بھی ہوا ہے تذکرہ دلبر گماں ہوتا رہا بس نفرتیں ہیں عشق میں جوابِ شکوہ : عمرِ درازی کی صنم بس راحتیں ہیں عشق میں ہر ایک لمحہ یار کی بس چاہتیں ہیں عشق میں حیرت کدوں میں جھانک کر دیکھا تو ہے تُو نے صنم حیران ہے جن سے جہاں وہ حاجتیں ہیں عشق میں کہتے نہیں اس کو حزیں یہ دلبری شیوہ نہیں دلدار پر کردو فدا جو راحتیں ہیں عشق میں بیوپار جو کرتے رہے جسموں پہ وہ مرتے رہے نفسِ طلب کی باخدا کب حاجتیں ہیں عشق میں دلدار کو دلدار سے فرصت کبھی ملتی نہیں اک پل قضا ہوتا نہیں وہ ساعتیں ہیں عشق میں پالا ہے جن کو شوق سے میرے جنونِ عشق نے ارمانِ دل وہ آج سارے قربتیں ہیں عشق میں جب بھی وصالِ یار کا دلبر گماں ہوتا رہا کامل یقیں ہوتا رہا کہ صحبتیں ہیں عشق میں
Sunday, 18 November 2018
گناہ نظم
گناہ زانیوں کے پاس نئی نئی دلیلیں ہیں نئے نئے الفاظ ہیں بے شمار جواز ہیں بدلتے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر یہ نئے قصے سناتے ہیں سوچ کے نئے زاویے تلاش کرتے ہیں اضطراب کا ایک ہی حل سوچتے ہیں بدبودار لمحات کو بستر کی سلو ٹوں میں سوۓ پوشیدہ تجربات کو شراب کے بُو میں گھول لیتے ہیں پھر اسُ لمحے تھوڑ ا سا سچ بھی بول لیتے ہیں گزرے لذت آشنا تجربات کا بھید بھی کھول لیتے ہیں کسی نئے بدن کی خوشبو میں گمُ میقاس الشباب سے پُر کیف لمحات تک شراب کے جام سے ناف تک راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں دلدل میں اُترتے قدموں کے واسطے کوئی جواز بھی سوچ لیتے ہیں حوا کے بیٹے بنت ِ حوا سے کھیل لیتے ہیں ۔۔۔۔ نادیہ عنبر لودھی اسلام آباد
غزل
غزل دیواروں پہ کیا لکھا ہے شہر کا شہر ہی سوچ رہا ہے غم کی اپنی ہی شکلیں ہیں درد کا اپنا ہی چہرہ ہے عشق کہانی بس اتنی ہے قیس کی آنکھوں میں صحرا ہے کو زہ گر نے مٹی گوندھی چاک پہ کوئی اور دھرا ہے عنبر تیرے خواب ادھورے تعبیروں کا بس دھوکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نادیہ عنبر لودھی اسلام آباد
Thursday, 15 November 2018
Tuesday, 6 November 2018
Dhoop Chaaon ka Mosam
کوئی دھوپ چھاؤں کا موسم ہو. اور مدھم مدھم بارش ہو💕 ہم گہری سوچ میں بیٹھے ہوں سوچوں میں سوچ تمھاری ہو💕 اُس وقت تم ملنے آجاؤ اور خوشی سے پلکیں بھاری ہو💕 ہم تم دونوں خاموش رہیں اور زباں پہ آنکھیں ہاوی ہو💕 تم تھام لو میرے ہاتھوں کو اور لفظ زباں سے جاری ہوں💕 میں تم سے محبت کرتی ہوں اور جذبوں میں سرشاری ہو💕 ہاتھوں کی لیکریں مل جائیں سنگ چلنے کی تیاری ہو💕 سب خوابوں کو تعبیر ملے اور ہم پر خوشیاں واری ہو💕 کوئی دھوپ چھاؤں کا موسم ہو اور مدھم مدھم بارش ہو💕
Monday, 5 November 2018
my poem
Maybe it's not a high-quality rhyme, but it's my first . sorry for the mistakes. I have been to many forums but I have not been looking for a forum so good that I will be happy, my colleague. I have met the forum and I became cheerful and I wanted to stay with you
Saturday, 3 November 2018
تم ابرِ گریزاں ہو
تم ابرِ گریزاں ہو میں صحرا کی مانند ہوں دو بوند جو برسو گے بے کار میں برسو گے ہے خشک بہت مٹی ہر سمت بگولے ہیں صحرا کے بگولوں سے اٹھتے ہوئے شعلے ہیں تم کھل کہ اگر برسو تو صحرا میں گلستاں ہو پر تم سے کہیں کیسے تم ابرِ گریزاں ہو جل تھل جو اگر کر دو تن من میں نمی بھر دو ہے خشک بہت مٹی پوری جو کمی کر دو پھر تم کو بتائیں گے تم میری محبت ہو لیکن تم تو ابرِ گریزاں ہو اور میں صحرا کی مانند ہوں تم ابرِ گریزاں ہو تم ابرِ گریزاں ہو
Monday, 29 October 2018
hijab e rang
کتاب ِ عمر کے دلگیر باب میں مجھے مل یا میری نیند میں آ اپنے خواب میں مجھے مل مرے گماں پہ اتر پھر حنا کا رنگ لیے پھر اپنے بالوں کے دلکش گلاب میں مجھے مل مل ایک بار مجھے وقت کی حدوں سے پرے مل ایک بار تو اپنی جناب میں مجھے مل خدا کے ہونے کی تو بھی تو اک نشانی ہے کسی بھی رنگ کسی بھی حجاب میں مجھے مل بگُولہ بن کے ترے اِرد گِرد پھرنے لگوں کبھی تو دشت میں آ اور سراب میں مجھے مل سکوت ِ ذات سے چٹخے سماعتوں کے بدن کسی صدا کے چھلکتے حباب میں مجھے مل خرد خمیر ہوں حیرت کے باب میں مجھے چُن جنوں طلسم کی نمکیں شراب میں مجھے مل
Sunday, 28 October 2018
My stat of mind
My State of Mind" In the midst of a serious fight, I get reminded of this transcient life. Why do I coddle my ego and pride? Why do I hesitate to tell, they are my truest delight? I wanted to come forward. To express my love, apologise for my mistakes and let them know how much they are meant! But, then and there only, ‘Why me’ and ‘why can’t they’ was the question I posed to myself, And it instantly changed my mind. To choose between love and pride became a plight. And this is how I lost the most important battles of my life. Oh! I regret, I had time… but… I missed… A thousand occasions, I left, Thinking that a thousand more I will get. But life is not always the same, And now I deserve to be blamed. I wasted years thinking that I am selfish, This feeling of regret cannot be replenished. I then, made a promise to repent for my mistakes, To choose love and prevent all sort of heart aches. I started putting my emotions naked to the people I loved, And what they did? Took advantage of it, made me realise I am not their worth. Repent, Repent, Repent and Remorse! © Sadiya Jalal
Saturday, 27 October 2018
مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں
مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں لاکھ سمجھایا کہ اس محفل میں اب جانا نہیں خود فریبی ہی سہی کیا کیجئے دل کا علاج تو نظر پھیرے تو ہم سمجھیں کہ پہچانا نہیں ایک دنیا منتظر ہے اور تیری بزم میں اس طرح بیٹھے ہیں ہم جیسے کہیں جانا نہیں جی میں جو آتی ہے کر گزرو کہیں ایسا نہ ہو کل پشیماں ہوں کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں زندگی پر اس سے بڑھ کر طنز کیا ہوگا فراز اس کا یہ کہنا کہ تو شاعر ہے دیوانہ نہیں احمد فراز
Sunday, 21 October 2018
intakhab e Man
نفع کی صورت ہؤا ، جتنا بھی خمیازہ ہؤا ، غم سہا جاتا ہے کیسے، ہم کو اندازہ ہؤا ۔۔۔ زندگی درویش کی مانند ہی میں نے کاٹ دی جب سے مجھ پہ بند اُس کے گھر کا دروازہ ہؤا ۔۔۔ موسمٍ گل! تیرا آنا بھی سزا سے کم نہیں ، وقت نے جو بھر دیا تھا ، زخم پھر تازہ ہؤا ۔۔۔ فکر کا سیاح میرے جیتے جی لوٹا نہیں ، جو مرے احساس میں باقی تھا شیرازہ ہؤا ۔۔۔ ایسا لگتا ہے دُعا مقبول میری ہو گئ! آج اپنی حیثیت کا مجھ کو اندازہ ہؤا ۔۔۔ مصلحت کوشی تجھے منزل تلک لے جائے گی! روح کی گہرائیوں میں ایسا آوازہ ہؤا ۔۔۔ تیرے چہرے کی اُداسی وہ چھپا سکتا ہے اب ، آجکل ایجاد پارس ایسا بھی غازہ ہؤا ۔۔۔!
Dunia k hazaar mosam
کیا بات بتائیں لوگوں کی ۔۔۔۔ دنیا کے ہزاروں موسم ہیں لاکھوں ہیں ادائیں لوگوں کی!! کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں، دنیا کو سنانے کے قابل۔۔۔۔ کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں، بس دل میں چھپانے کے قابل۔۔۔۔ کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں، اک بار گئے تو آتے نہیں۔۔۔۔ ہم لاکھ بلانا بھی چاہیں، پرچھائیں بھی انکی پاتے نہیں۔۔ کچھ لوگ خیالوں کے اندر، جذبوں کی روانی ہوتے ہیں۔۔۔۔ کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح، پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں۔۔۔۔ کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں، کچھ لوگ کنارا ہوتے ہیں۔۔ کچھ ڈوبنے والی جانوں کو، تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں۔۔۔۔ کچھ لوگ چٹانوں کا سینہ، کچھ ریت گھروندہ چھوٹا سا۔۔۔۔ کچھ لوگ مثال ابر رواں، کچھ اونچے درختوں کا سایہ۔۔۔۔ کچھ لوگ چراغوں کی صورت، راہوں میں اجالا کرتے ہیں۔۔۔۔ کچھ لوگ اندھیروں کی کالک چہرے پر اچھالا کرتے ہیں۔۔۔۔ کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں، دو گام چلے اور رستے الگ۔۔۔۔ کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا، ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ۔۔۔۔
Tuesday, 16 October 2018
لفظوں کے تھکے لوگ
"لفظوں کے تھکے لوگ" ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے درد دل میں چھپا کے رکھتے ہیں آنکھ ویراں ہے اس طرح ان کی جیسے کچھ بھی نہیں رہا اس میں نہ کوئی اشک نہ کوئی سپنا نہ کوئی غیر نہ کوئی اپنا پپڑیاں ہونٹ پر جمی ایسی جیسے صدیوں کی پیاس کا ڈیرہ جیسے کہنے کو کچھ نہیں باقی درد سہنے کو کچھ نہیں باقی اجنبیت ہے ایسی نظروں میں کچھ بھی پہچانتے نہیں جیسے کون ہے جس سے پیار تھا ان کو کون ہے جس سے کچھ عداوت تھی کون ہے جس سے کچھ نہیں تھا مگر ایک بے نام سی رفاقت تھی سوکھی دھرتی کو ابر سے جیسے ایسی انجان سی محبت تھی رنگ بھرتے تھے سادہ کاغذ پر اپنے خوابوں کو لفظ دیتے تھے اپنی دھڑکن کی بات لکھتے تھے دل کی باتوں کو لفظ دیتے تھے اس کے ہونٹوں سے خامشی چن کو اس کی آنکھوں کو لفظ دیتے تھے چاندنی کی زباں سمجھتے تھے چاند راتوں کو لفظ دیتے تھے ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے اپنے جذبوں سے تھک گئے جیسے اپنے خوابوں سے تھک گئے جیسے دل کی باتوں سے تھک گئے جیسے اس کی آنکھوں سے تھک گئے جیسے چاند راتوں سے تھک گئے جیسے ایسے خاموشیوں میں رہتے ہیں اپنے لفظوں سے تھک گئے جیسے
جانے دیں گے؟
جون ایلیا زمانے بھر کو اداس کر کے خوشی کا ستیا ناس کر کے میرے رقیبوں کو خاص کر کے بہت ہی دوری سے پاس کر کے تمہیں یہ لگتا تھا جانے دیں گے ؟ سبھی کو جا کے ہماری باتیں بتاؤ گے اور بتانے دیں گے ؟ تم ہم سے ہٹ کر وصالِ ہجراں مناؤ گے اور منانے دیں گے ؟ میری نظم کو نیلام کر کے کماؤ گے اور کمانے دیں گے ؟ تو جاناں سن لو اذیتوں کا ترانہ سن لو کہ اب کوئی سا بھی حال دو تم بھلے ہی دل سے نکال دو تم کمال دو یا زوال دو تم یا میری گندی مثال دو تم میں پھر بھی جاناں ۔۔۔۔۔۔۔! میں پھر بھی جاناں ۔۔۔ پڑا ہوا ہوں ، پڑا رہوں گا گڑا ہوا ہوں ، گڑا رہوں گا اب ہاتھ کاٹو یا پاؤں کاٹو میں پھر بھی جاناں کھڑا رہوں گا بتاؤں تم کو ؟ میں کیا کروں گا ؟ میں اب زخم کو زبان دوں گا میں اب اذیت کو شان دوں گا میں اب سنبھالوں گا ہجر والے میں اب سبھی کو مکان دوں گا میں اب بلاؤں گا سارے قاصد میں اب جلاؤں گا سارے حاسد میں اب تفرقے کو چیر کر پھر میں اب مٹاؤں گا سارے فاسد میں اب نکالوں گا سارا غصہ میں اب اجاڑوں گا تیرا حصہ میں اب اٹھاؤں گا سارے پردے میں اب بتاؤں گا تیرا قصہ مزید سُن لو۔۔۔ او نفرتوں کے یزید سن لو میں اب نظم کا سہارا لوں گا میں ہر ظلم کا کفارہ لوں گا اگر تو جلتا ہے شاعری سے تو یہ مزہ میں دوبارہ لوں گا میں اتنی سختی سے کھو گیا ہوں کہ اب سبھی کا میں ہو گیا ہوں کوئی بھی مجھ سا نہی ملا جب خود اپنے قدموں میں سو گیا ہوں میں اب اذیت کا پیر ہوں جی میں عاشقوں کا فقیر ہوں جی کبھی میں حیدر کبھی علی ہوں جو بھی ہوں اب اخیر ہوں جی
اپنا تو یہی سرمایہ ہے
کیا حال سنائیں دُنیا کا کیا بات بتائیں لوگوں کی دنیا کے ہزاروں موسم ہیں لاکھوں ہیں ادائیں لوگوں کی کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں دنیا کو سنانے کے قابل کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں بس دل میں چھپانے کے قابل کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں اک بار گئے تو آتے نہیں ہم لاکھ بلانا بھی چاہیں پرچھائی بھی انکی پاتے نہیں کچھ لوگ خیالوں کے اندر جذبوں کی روانی ہوتے ہیں کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں کچھ لوگ کنارا ہوتے ہیں کچھ ڈوبنے والی جانوں کو تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں کچھ لوگ چٹانوں کا سینہ کچھ ریت گھروندہ چھوٹا سا کچھ لوگ مثال ابر رواں کچھ اونچے درختوں کا سایہ کچھ لوگ چراغوں کی صورت راہوں میں اجالا کرتے ہیں کچھ لوگ اندھیروں کی کالک چہرے پر اچھالا کرتے ہیں کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں دو گام چلے اور رستے الگ کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ کیا حال سنائیں اپنا تمہیں کیا بات بتائیں جیون کی اک آنکھ ہماری ہستی ہے اک آنکھ میں رت ہے ساون کی ہم کس کی کہانی کا حصہ ہم کس کی دعا میں شامل ہیں ہے کون جو رستہ تکتا ہے ہم کس کی وفا کا حاصل ہیں کس کس کا پکڑ کر دامن ہم اپنی ہی نشانی کو پوچھیں ہم کھوئے گئے کن راہوں میں اس بات کو صاحب جانے دیں کچھ درد سنبھالے سینے میں کچھ خواب لٹائے ہیں ہم نے اک عمر گنوائی ہے اپنی، کچھ لوگ کمائے ہیں ہم نے دل خرچ کیا ہے لوگوں پر جان کھوئی ہے غم پایا ہے اپنا تو یہی سرمایہ ہے اپنا تو یہی سرمایہ ہے
Thursday, 11 October 2018
Sunday, 30 September 2018
رنجش ہی سہی
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ
Tuesday, 25 September 2018
Mohabbat youn b hoti hai
اسے کہنا محبت یوں بھی ہوتی ہے مہینوں رابطہ نہ ہو بھلےبرسوں قبل دیکھا ہو ہم نے ایک دوجے کو مگر پھر بھی سلامت ھی یہ رہتی ہے یہ برگ و بار لاتی ہے اسے کہنا مجھے اس سے محبت ہے کہ جیسے پھول کا خوشبو سے اک انجان رشتہ ہے اسے کہنا محبت میں کبھی وہ پھول بن جائے کبھی خوشبو وہ بن جائے اسے کہنا محبت میں ہے کوئی تیسرا بھی جو محبت کی وجہ بھی ہے کہ جس پھوٹتے ہیں پیار کے سارے ہی سرچشمے اسے کہنا کہ دنیا میں نہ جانے کب ملیں گے ہم مگر روز حشر ہم ساتھ ہوں گے عرش کے نیچے ہاں اس کے عرش کے نیچے جو میرا اور تمہارا اور محبت کا خدا بھی ہے
Monday, 24 September 2018
Tera Ehsas chuno
میں لفظ چُنوں .. دلکش چُنوں پھر ان سے تیرا احساس بُنوں تجھے لکھوں میں دھڑکن اس دل کی یا تجھ کو ابر کی رم جھم لکھوں ستاروں کی عجب جھلمل کبھی پلکوں کی تجھے شبنم لکھوں .. کبھی کہہ دوں تجھے میں جاں اپنی کبھی تجھ کو میں اپنا محرم لکھوں کبھی لکھ دوں تجھے ہر درد اپنا کبھی تجھ کو زخم کا مرہم لکھوں تو زیست کی ہے امید میری میں تجھ کو خوشی کی نوید لکھوں لفظوں پہ نگاہ جو ڈالوں کبھی ہر لفظ کو بیاں سے عاجز لکھوں! میں تجھ کو تکوں.. تکتی جاؤں میں تجھ کو میری تمہید لکھوں! تو گفت ہو میرے اس دل کی.. میں تجھ کو فقط شنید لکھوں....
Sunday, 23 September 2018
Hun mai ahwaal faramoosh mere sath raho
ھُوں مَیں احوال فراموش مِرے ساتھ رھو آج سچ مُچ ھُوں مَیں بےہوش مِرے ساتھ رھو میری مستی کو ہے آغوشِ محبّت کی ھوَس اور نایاب ہے آغوش مِرے ساتھ رھو اے مِرے ہم نفسانِ روِش نیم شبی ھوچُکی بادہ سر جوش مِرے ساتھ رھو بس سُنے جاؤ تُمھاری ھی کہے جاؤں گا میرے یارو ہمہ تن گوش مِرے ساتھ رھو خواب کی شب کا ھُوں مَیں ھی تو بس خوش گُفتار خواب کے شہر میں خاموش مِرے ساتھ رھو کیا خبر راہ میں مُجھ سے کوئی سر ٹکرا دے ھوں گے کُچھ اور بھی مدھوش مِرے ساتھ رھو پی کے آیا تھا مَیں پھر ساتھ تمھارا بھی دیا میکشو تُم کہ ھو کم نوش مِرے ساتھ رھو وعدہء شام کا مطلب ہے سَحر کا وعدہ وہ ہے اِک وعدہ فراموش مِرے ساتھ رھو تُم مِرے ساتھ رھو مست خیالو تم کو فِکر فردا نہ غم دوش مِرے ساتھ رھو۔۔۔! جونؔ ایلیا
Thursday, 20 September 2018
welcome to black cart brotherhood occult+2347087521893
this is the full opportunity given to the wise people in Africa Are you frustrated in life. What type of wealth do you want? Today the black cart has order us to bring member to his kingdom. Are you tired of poverty and now you want fame,power and riches.Our magical powers are beyond your imagination. we could do magic on your behalf regarding , your financial situation, future events, or whatever is important to you. we have the power and we use the power. we are black cart brotherhood and we could change the course of destiny. Get to us and we shall help you. Tell us what it is you want and we shall go about our work. Is it someone or something you desire to have? Do you want wealth(Want to grow your bank account?, Need funds to enjoy the good life? Tired of working hard and getting nothing, the most power society welcomes you to black cart brotherhood. contact initiation home +2347087521893 FOR 'i want to join occult in Nigeria' 'i want to join real occult in Ghana' 'i want to join occult in Africa to be rich' 'i want to join an occult for money and power' 'i want to join an occult for wealth and protection' 'i want to join good occult fraternity in Nigeria' 'i want to join great BLACK CART in Nigeria to be rich' 'i want to join BLACK CART occult in Nigeria/Africa' 'i want to join BLACK CART brotherhood in Nigeria' we are now here for you
Tuesday, 18 September 2018
رنج فراق یار
رَنـــجِ فـــراقِ یار میں رُســــوا نہیں ہُوا اتنا مــــیں چُپ ہُوا کہ تماشہ نہیں ہُوا ایساسفر ہےجس میں کوئی ہمسفر نہیں رستہ ہے اس طــرح کا کہ دیکھا نہیں ہُوا مشکل ہُوا ہے رہنا ہمـــیں اِس دیار مــیں برسوں یہاں رہے ہـــیں ، یہ اپنا نہیں ہُوا وہ کام شاہِ شــہر سے یا شــہر سے ہُوا جــو کام بھی ہُوا ، یـــہاں اچھا نہیں ہُوا ملنا تھا ایک بار اُسے پھـــر کہیں ' منیرؔ ایسا مـــیں چاھتا تھا، پر ایسا نہیں ہُوا؎! منیر نیازی
یہ معجزہ محبت کبھی دکھائے مجھے
یہ معجزہ بھی محبّت کبھی دِکھائے مجھے کہ سنگ تجھ پہ گِرے اور زخم آئے مجھے میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہُوں سائے کو بدن مِرا ہی سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے بَرنگِ عَود مِلے گی اُسے مِری خوشبُو وہ جب بھی چاہے، بڑے شوق سے جَلائے مجھے میں گھر سے، تیری تمنّا پہن کے جب نِکلوں برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے وہی تو سب سے زیادہ ہے نُکتہ چِیں میرا جو مُسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے میں اپنے دِل سے نِکالوں خیال کِس کِس کا جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا گُزار کر تِری زُلفوں کے سائے سائے مجھے وہ میرا دوست ہے، سارے جہاں کو ہے معلوُم دَغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے وہ مہْرباں ہے، تو اِقرار کیوں نہیں کرتا وہ بدگُماں ہے، تو سو بار آزمائے مجھے میں اپنی ذات میں نِیلام ہو رہا ہُوں، غمِ حیات سے کہہ دو خرِید لائے مجھے - قتیل شفائی
دشوار
کتنا دشوار تھا دنیا یہ ہنر آنا بھی تجھ سے ہی فاصلہ رکھنا تجھے اپنانا بھی کیسی آداب نمائش نے لگائیں شرطیں پھول ہونا ہی نہیں پھول نظر آنا بھی دل کی بگڑی ہوئی عادت سے یہ امید نہ تھی بھول جائے گا یہ اک دن ترا یاد آنا بھی جانے کب شہر کے رشتوں کا بدل جائے مزاج اتنا آساں تو نہیں لوٹ کے گھر آنا بھی ایسے رشتے کا بھرم رکھنا کوئی کھیل نہیں تیرا ہونا بھی نہیں اور ترا کہلانا بھی خود کو پہچان کے دیکھے تو ذرا یہ دریا بھول جائے گا سمندر کی طرف جانا بھی جاننے والوں کی اس بھیڑ سے کیا ہوگا وسیمؔ اس میں یہ دیکھیے کوئی مجھے پہچانا بھی
تُو سمجھتا ہے محبت سے گزر جائے گا؟
تُو سمجھتا ہے محبت سے گزر جائے گا ؟ تُو جو نکلے گا کناروں سے تو مر جائے گا یہ ضروری تو نہیں ہجر کے لمحات گنوں "وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے، گزر جائے گا" یہ ترے بس کا نہیں روگ، میاں چھوڑ اسے تُو بدن چاٹ کے الفت سے مکر جائے گا میرے رونے سے سمندر میں اضافہ نہ سہی کم سے کم آنکھ کا دریا تو اتر جائے گا اے مرے عکسِ جنوں دیکھ مرے چہرے کو تُو بھی خاموش رہے گا تو بکھر جائے گا قیس کو قیس نما اور مجھے قیس کہا میں نہ کہتا تھا مجھے دیکھ کے ڈر جائے گا
Monday, 17 September 2018
Tuesday, 11 September 2018
جانِ جاں تجھ کو اب تیری خاطر
دل کی تکلیف کم نہیں کرتے اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے جان جاں تجھ کو اب تیری خاطر یاد ہم کوئی دم نہیں کرتے دوسری ہار کی ہوس ہے سو ہم کو سر تسلیم خم نہیں کرتے وہ بھی پڑھتا نہیں ہے اب دل سے ہم بھی نالے کو نم نہیں کرتے جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے جون ایلیاء
Sunday, 19 August 2018
تم کو ایک شخص یاد آئے گا
جب کوئی پیار سے بلائے گا تم کو ایک شخص یاد آئے لذت غم سے آشنا ہو کر اپنے محبوب سے جدا ہو کر دل کہیں جب سکوں نہ پائے گا تم کو ایک شخص یاد آئے گا تیرے لب پہ نام ہو گا پیار کا شمع دیکھ کر جلے گا دل تیرا جب کوئی ستارہ ٹمٹمائے گا تم کو ایک شخص یاد آئے گا زندگی کے درد کو سہو گے تم دل کا چین ڈھونڈتے رہو گے تم زخم دل جب تمہیں ستائے گا تم کو ایک شخص یاد آئے گا جب کوئی پیار سے بولائے گا تم کو ایک شخص یاد آئے گا
گرمیِ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
گرمیِ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لئے ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں بچ نکلتے ہیں اگر آتشِ سیال سے ہم شعلۂ عارضِ گلفام سے جل جاتے ہیں خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں قتیل شفائی
Saturday, 18 August 2018
Friday, 17 August 2018
Michael Hartono: Djarum Black's Owner & Indonesia's Richest Man Who'll Compete At Asian Games
Remember 'Djarum Black'? The black-coloured clove cigarettes that initially looked cool to smoke and made you stand out, until you realised your folks could smell its strong stench from a mile away. Often labelled as a rich man's Gudang Garam, they are almost available at every roadside shop in India today. But, have you wondered where it came from? I was almost under the impression that it was being manufactured at some shady factory in Andhra Pradesh. However, it's not. 'Djarum Black' - also known as 'kreteks' - are imported from Indonesia - one of the biggest exporters of clove cigarettes, cigars and hand-rolled bidis in the world. It is manufactured by Indonesia's famous Djarum Group which was founded by an ethnic Chinese businessman in Kudus (Central Java) in 1951. Oei Wie Gwan bought a nearly defunct cigarette company known as NV Murup and gave birth to the brand Djarum we all know today. But, the company also went extinct in 1963 when a huge fire destroyed its factory which was followed by Gwan's death. © Twitter The death of Djarum Group's owner paved way for his children Robert Budi Hartono and Michael Bambang Hartono who took over the reins and re-established their brand. Today, Djarum Group has around 50 blends of clove cigarettes internationally and is the world's third-largest manufacturer of clove cigarettes. The company has an estimated net worth of over $11 billion, while Hartono family's net worth is estimated to be around $16.7 billion (according to Forbes). But, the Hartono family isn't in news for their commercial interests in tobacco, banking and communications amongst others, rather it is Gwan's son Michael whose much-anticipated participation in the 2018 Asian Games, slated to begin from 18th August in Jakarta & co-hosted in Palembang, that has got the media attention. Michael, the 78-year-old billionaire tobacco tycoon and the richest man in Indonesia, is set to represent his country on its bridge team at the world's second-biggest multi-sport event. Classified as a 'mind game', contract bridge is a card game that is played with a standard 52-card deck. In its basic format, it is played by four players in two competing partnerships, with partners sitting opposite each other around a table. © Twitter The game consists of several deals - each progressing through four phases. The cards are dealt to the players, and then the players auction or bid to take the contract, specifying how many tricks the partnership receiving the contract (the declaring side) needs to take to receive points for the deal. During the auction, partners communicate information about their hand, including its overall strength and the length of its suits, although conventions for use during play also exist. The cards are then played, the declaring side trying to fulfil the contract, and the defenders trying to stop the declaring side from achieving its goal. The deal is scored based on the number of tricks taken, the contract, and various other factors which depend to some extent on the variation of the game being played. Well, it's more of a mystery to me who has never been able to get a hold of any card game (including childish Uno). But, what's interesting here is the fact that contract bridge has been included to the Games by Indonesia as hosts. And, it appears that Michael Hartono played a crucial role in convincing a sceptical Olympic Council of Asia to gove the card game its maiden run at the Asian Games. I guess, when you are the richest man in the country, it doesn't really take much convincing, does it. © Twitter Hartono's association to bridge reportedly dates back to the tender age of six. He has also competed several times in the World Bridge Championships and now aims to strike gold for his country at the Asian Games. But, the tobacco king, claims he isn't doing it for money, but for the passion he has for bridge. In fact, Hartono has announced that he'll forego the 1.5 billion rupiah ($102,000) cash prize that the Indonesian government has promised to award to its top medallists at the Games. "If I managed to win gold, I would donate the government's cash prize to the athletes training program," he was quoted as saying by domestic news agency Antara. Apart from his rich background and passion for bridge, Hartono narrowly missed out on being the oldest player to compete at this year's Asian Games. Malaysia's Lee Hung Fong - the 81-year-old who'll compete against Hartono in contract bridge - has claimed the unique feat with his participation. Fong is seven decades older than the youngest athlete - nine-year-old Indonesian skateboarder Aliqqa Novvery Kayyisa - at this year's edition of the Games.
Thursday, 16 August 2018
Sunday, 12 August 2018
Thursday, 9 August 2018
Sunday, 5 August 2018
Friday, 3 August 2018
Thursday, 2 August 2018
Wednesday, 1 August 2018
Subscribe to:
Posts (Atom)