Thursday, 31 January 2019
تنہائی کا دکھ گہرا تھا
تنہائی کا دکھ گہرا تھا میں دریا دریا روتا تھا ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ میں طوفانوں سے کھیلا تھا تنہائی کا تنہا سایا دیر سے میرے ساتھ لگا تھا چھوڑ گئے جب سارے ساتھی تنہائی نے ساتھ دیا تھا سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی تنہائی کا پھول کھلا تھا تنہائی میں یاد خدا تھی تنہائی میں خوف خدا تھا تنہائی محراب عبادت تنہائی منبر کا دیا تھا تنہائی مرا پائے شکستہ تنہائی مرا دست دعا تھا وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا تنہائی مرے دل کی جنت میں تنہا ہوں میں تنہا تھا
تنہائی کا دکھ گہرا تھا
تنہائی کا دکھ گہرا تھا میں دریا دریا روتا تھا ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ میں طوفانوں سے کھیلا تھا تنہائی کا تنہا سایا دیر سے میرے ساتھ لگا تھا چھوڑ گئے جب سارے ساتھی تنہائی نے ساتھ دیا تھا سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی تنہائی کا پھول کھلا تھا تنہائی میں یاد خدا تھی تنہائی میں خوف خدا تھا تنہائی محراب عبادت تنہائی منبر کا دیا تھا تنہائی مرا پائے شکستہ تنہائی مرا دست دعا تھا وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا تنہائی مرے دل کی جنت میں تنہا ہوں میں تنہا تھا
ناز بیگانگی میں کیا کچھ تھا
ناز بیگانگی میں کیا کچھ تھا حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا لاکھ راہیں تھیں لاکھ جلوے تھے عہد آوارگی میں کیا کچھ تھا آنکھ کھلتے ہی چھپ گئی ہر شے عالم بے خودی میں کیا کچھ تھا یاد ہیں مرحلے محبت کے ہائے اس بیکلی میں کیا کچھ تھا کتنے بیتے دنوں کی یاد آئی آج تیری کمی میں کیا کچھ تھا کتنے مانوس لوگ یاد آئے صبح کی چاندنی میں کیا کچھ تھا رات بھر ہم نہ سو سکے ناصرؔ پردۂ خامشی میں کیا کچھ تھا
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
جنھيں ميں ڈھونڈتا تھا آسمانوں ميں زمينوں ميں
جنھيں ميں ڈھونڈتا تھا آسمانوں ميں زمينوں ميں وہ نکلے ميرے ظلمت خانہ دل کے مکينوں ميں حقيقت اپني آنکھوں پر نماياں جب ہوئي اپني مکاں نکلا ہمارے خانہ دل کے مکينوں ميں اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہہ سائي سے تو سنگ آستاں کعبہ جا ملتا جبينوں ميں کبھي اپنا بھي نظارہ کيا ہے تو نے اے مجنوں کہ ليلی کي طرح تو خود بھي ہے محمل نشينوں ميں مہينے وصل کے گھڑيوں کي صورت اڑتے جاتے ہيں مگر گھڑياں جدائي کي گزرتي ہيں مہينوں ميں مجھے روکے گا تو اے ناخدا کيا غرق ہونے سے کہ جن کو ڈوبنا ہو ، ڈوب جاتے ہيں سفينوں ميں چھپايا حسن کو اپنے کليم اللہ سے جس نے وہي ناز آفريں ہے جلوہ پيرا نازنينوں ميں جلا سکتي ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کي الہي! کيا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سينوں ميں تمنا درد دل کي ہو تو کر خدمت فقيروں کي نہيں ملتا يہ گوہر بادشاہوں کے خزينوں ميں نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کي ، ارادت ہو تو ديکھ ان کو يد بيضا ليے بيٹھے ہيں اپني آستينوں ميں ترستي ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو وہ رونق انجمن کي ہے انھي خلوت گزينوں ميں کسي ايسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو کہ خورشيد قيامت بھي ہو تيرے خوشہ چينوں ميں محبت کے ليے دل ڈھونڈ کوئي ٹوٹنے والا يہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہيں نازک آبگينوں ميں سراپا حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق بھلا اے دل حسيں ايسا بھي ہے کوئي حسينوں ميں پھڑک اٹھا کوئي تيري ادائے 'ما عرفنا' پر ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرينوں ميں نماياں ہو کے دکھلا دے کبھي ان کو جمال اپنا بہت مدت سے چرچے ہيں ترے باريک بينوں ميں خموش اے دل! ، بھري محفل ميں چلانا نہيں اچھا ادب پہلا قرينہ ہے محبت کے قرينوں ميں برا سمجھوں انھيں مجھ سے تو ايسا ہو نہيں سکتا کہ ميں خود بھي تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چينوں ميں
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں زجاج کی یہ عمارت ہے سنگ خارہ نہیں خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں مگر یہ حوصلۂ مرد ہیچ کارہ نہیں ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے کہ خاک زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں یہیں بہشت بھی ہے، حور و جبرئیل بھی ہے تری نگہ میں ابھی شوخی نظارہ نہیں مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں غضب ہے عین کرم میں بخیل ہے فطرت کہ لعل ناب میں آتش تو ہے شرارہ نہیں
Tuesday, 29 January 2019
Shohar lakh bhala chahye tu kaya huta hy - Funny poetry
شوہر لاکھ بھلا چاہے تو کیا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے جو بیگم نے کہا ہوتا ہے غم ہو کس بات کا بیگم کو خریداری کا بل تو شوہر کے ہی بٹوے سے ادا ہوتا ہے درد جوڑوں کا بس جوڑے ہی جانتے ہیں اور اس درد کا درماں بھی کہاں ہوتاہے ایک طرف ماں ہے اور دوسری جانب بیگم جیسے آلو کوئی سینڈوچ میں دبا ہوتا ہے بعد شادی کے یہی کہتا پھرے ہے شوہر وقتِ کنوارگی کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے [gallery640x480] [photo=https://i.pinimg.com/originals/9c/6a/ef/9c6aefabe2798beedbdac7341d402183.png]Husband wife funny, I miss you[/photo] [photo=https://lh3.googleusercontent.com/-obsIq1raTC4/Vh6gjkdMEjI/AAAAAAAAAEQ/H7k61V-Gk4k/w530-h383-n-rw/Husband%2BWife%2BBiggest%2BProblem%2BJoke%25281%2529.jpg]funny husband wife pic[/photo] [/gallery]
Sunday, 27 January 2019
Thursday, 24 January 2019
Sunoo ! Aye Mehrbaan Larki
.... سنو اے مہربان لڑکی میں اکثر سوچتا ہوں کوئی ایسا نام تم کو دوں کہ جو منسوب ہو تم سے تو تم کو جاوداں کر دے ہو کوئی نام ایسا تو جو مجسمہ حُسن فطرت ہو بہت ہی خوبصورت ہو کسی نازک پری جیسا کہ جو حُسن جہاں رنگ و بو کا استعارہ ہو تیرےملکوتی پیکر کو مگر تشبیہ کس سے دوں اگر میں گُل کہوں تم کو؟ مگر پھول تو مرجھا کے آخر سوکھ جاتے ہیں اگر تارہ کہوں تم کو؟ ستارے ٹوٹ کر لیکن فضا میں کھو جاتے ہیں کہوں قوس قزح لیکن ؟ سبھی رنگ اکٹھے مِل کر بھی تیری روح سے چھلکتی نور کی کرنوں کو نہ پہنچے حِنا کا نام دوں تم کو؟ مگر رنگ حِنا تو چار دن میں روٹھ جاتا ہے اگر بادل کہوں تم کو؟ گھٹاؤں سے سوا لیکن تیرے جزبات کی شدت ہے تمہیں ساون کہوں کیسے؟ تمھارے پیار کی بارش تو ہر موسم برستی ہے نسیم صبح کہہ دو یا کہوں باد صبا تم کو؟ مگر فطرت ہوا کی تو ازل سے بیوفائی ہے تیری وارفتگی سوچوں, سمندر کی لہر کہہ دوں ؟ مگر موجوں کی طغیانی تو اک پونم کی شب تک ہے تیری آنکھیں اگر سوچوں, تمہیں مے کا بدل کہہ دوں؟ خمار مے تو لیکن رات بھر کی بات ہوتی ہے اگر سایہ کہوں, جھونکا کہوں, خوشبو کہوں تم کو؟ مگر تم تو مجسمہ ہو بہت کچھ سوچتا ہوں میں تمھارا نام کیا رکھوں؟ کہوں جادو, چراغ راہ یا منزل کہوں تم کو؟ کہوں میں جستجو کوشش کہوں یا دل کہوں تم کو؟ شفق کہہ دوں سحر کہہ دوں یا کہہ دوں چاندنی تم کو؟ اگر خواہش کہوں یا آرزو یا زندگی تم کو؟ اگر ساحر کہوں, نشہ کہوں یا بے خودی تم کو؟ ادا کہہ دوں, وفا کہہ دوں, حیاء کہہ دوں اگر تم کو؟ اگر ساحل کہوں, کشتی کہوں یا ناخدا تم کو؟ اگر تقدیر یا انعام یا قسمت کہوں تم کو؟ اگر غنچہ کہوں ,لالہ کہوں, نرگس کہوں تم کو؟ کہوں میں جان یا جاناں یا جان جاں تم کو؟ اگر جھرنا کہوں, دریا کہوں, ساگر کہوں تم کو؟ کِرن کہہ دوں, گھٹا کہہ دوں یا پھر رِم جھِم کہوں تم کو؟ اگر جگنو کہوں,شعلہ کہوں, شبنم کہوں تم کو؟ اگر شیشہ کہوں, موتی کہوں, ریشم کہوں تم کو؟ .... یہ سارے نام تیری ذات کے پہلو سہی لیکن مگر جچتا نہیں کوئی یہ سارے نام فانی ہیں تمھارا نام ایسا ہو جو تم کو جاوداں کر دے .... تمھیں پورا بیان کردے .... سنو! اے مہربان لڑکی بہت ہی سوچ کر میں نے تمھارا نام رکھا ہے.... #محبت
Sunday, 20 January 2019
♡♡ Shama e Mehfil ♡♡ Urdu Poetry
بہلتے کس جگہ ، جی اپنا بہلانے کہاں جاتے تری چوکھٹ سے اُٹھ کر تیرے دیوانے کہاں جاتے نہ واعظ سے کوئی رشتہ، نہ زاہد سے شناسائی اگر ملتے نے رندوں کو تو پیمانے کہاں جاتے خدا کا شکر ، شمعِ رُخ لیے آئے وہ محفل میں جو پردے میں چُھپے رہتے تو پروانے کہاں جاتے اگر ہوتی نہ شامل رسمِ دنیا میں یہ زحمت بھی کسی بے کس کی میّت لوگ دفنانے کہاں جاتے اگر کچھ اور بھی گردش میں رہتے دیدہِ ساقی نہیں معلوم چکّر کھا کے میخانے کہاں جاتے خدا آباد رکّھے سلسلہ اِس تیری نسبت کا وگرنہ ہم بھری دنیا میں پہچانے کہاں جاتے نصیرؔ اچھا ہوا در مل گیا اُن کا ہمیں ، ورنہ کہاں رُکتے ، کہاں تھمتے ، خدا جانے کہاں جاتے
Saturday, 19 January 2019
♡♡ Shama e Mehfil ♡♡
بہلتے کس جگہ ، جی اپنا بہلانے کہاں جاتے تری چوکھٹ سے اُٹھ کر تیرے دیوانے کہاں جاتے نہ واعظ سے کوئی رشتہ، نہ زاہد سے شناسائی اگر ملتے نے رندوں کو تو پیمانے کہاں جاتے خدا کا شکر ، شمعِ رُخ لیے آئے وہ محفل میں جو پردے میں چُھپے رہتے تو پروانے کہاں جاتے اگر ہوتی نہ شامل رسمِ دنیا میں یہ زحمت بھی کسی بے کس کی میّت لوگ دفنانے کہاں جاتے اگر کچھ اور بھی گردش میں رہتے دیدہِ ساقی نہیں معلوم چکّر کھا کے میخانے کہاں جاتے خدا آباد رکّھے سلسلہ اِس تیری نسبت کا وگرنہ ہم بھری دنیا میں پہچانے کہاں جاتے نصیرؔ اچھا ہوا در مل گیا اُن کا ہمیں ، ورنہ کہاں رُکتے ، کہاں تھمتے ، خدا جانے کہاں جاتے
Thursday, 17 January 2019
Tuesday, 15 January 2019
Ishq zada
َموت بر حق ہے یہ ایمان ہے میرا لیکن تم مجھے مار کے کہتے ہو خدا نے مارا تم چراغوں کو بجھانے میں بہت ہو مشاق اور یہ الزام لگاتے ہو، ہوا نے مارا مجھ کو پہچان لو میں عشق زدہ، ہجر زدہ ہاں مرے بارے میں لکھ دو کہ وفا نے مارا بیچ کر جھوٹی مسیحائی منافعے کے لیے کتنے آرام سے کہتے ہو وبا نے مارا قتل کر پاتے مجھے کانٹے یہ جرات ان کی میں تو وہ گُل ہوں جسے دستِ صبا نے مارا کوئی مرتا ہے سڑک پر کوئی بیماری سے ہائے وہ شخص جسے چشمِ خفا نے مارا کیا ہی اچھا تھا کہ تُو چپ ہی کھڑا رہ جاتا اک مسافر تھا جسے تیری صدا نے مارا لوگ لکھیں گے مِرے بارے مرے مرنے پر ایک صحرائے محبت کو گھٹا نے مارا مرنے والا تری نفرت سے کہاں تھا فرحت میرے دل کو تو محبت کی شفا نے مارا !!
اے کوزہ گر
اے کُوزہ گر اس بار جو آوے میں دھریو ہر ذرّے میں اِک دِل رکھیو اور دِل میں اپنی چاہت بس ہاں چاہت میں وہ رنگ اپنا جو لاکھ چُھٹائے نہ چُھوٹے جو مال رہے پامال رہے بس مگن سا ہو اے کُوزہ گر اس بار جو آوے میں دھریو ہر ذرّے میں اِک دِل رکھیو جسے آنکھ میں ڈھلنا آتا ہو جسے بادل برکھا دِل میں سنْجونا آتے ہوں جو منظر ناظر نظر بھی ہو جو رنگ بھی ہو اور خوشبو بھی ہاں بِینا ہو بِینائی بھی سُن یار تیری شیدائی بھی اے کُوزہ گر اے کُوزہ گر
Saturday, 12 January 2019
♡Yadoon k silsaly♡
رکو لہرو ا نہیں بھی سنگ لے جاؤ۔۔۔۔ میرے دامن سے کہیں دور لے جاؤ۔۔۔۔ مجھے یہ غم تیری یادوں سے۔۔۔۔ پل پل آشنا کرتے ہیں۔۔۔۔۔ مجھے جینے نہیں دیتے۔۔۔۔ مجھے رونے نہیں دیتے۔۔۔۔ نہیں دیتے مجھے سونے۔۔۔۔ مجھے الجھا کے رکھتے ہیں۔۔۔۔ بہت ہی تنگ کرتے ہیں۔۔۔ یہ میرے سنگ رہتے ہیں۔۔۔ انہیں تم ساتھ لے جاؤ۔۔۔۔۔ مجھے چند خوشیاں دے جاؤ۔۔۔ سنو لہرو میرے غموں کو سنبھل کر لے جانا۔۔۔ کے اس میں کہیں اجنبی لوگوں کی کچھ یادوں کے سلسلے ہیں۔۔۔۔۔ بے معانی وعدے ہیں اس کا کچھ احساس باقی ہے۔ کہے جو الفاظ جانے سے قبل ایک لمحہ پہلے۔۔۔۔ خداحافظ کے وہ الفاظ باقی ہیں۔۔۔۔۔
Wednesday, 9 January 2019
Wednesday, 2 January 2019
چل پیر سائیں کوئی آیّت پُھونک کوئی ایسا اِسمِ اعظم پڑھ
چل پیر سائیں کوئی آیّت پُھونک کوئی ایسا اِسمِ اعظم پڑھ وہ آنکھیں میری ہو جائیں کوئی صوم صلوٰۃ دُرُود بتا کہ وجّد وُجُود میں آ جائے کوئی تسبیح ہو کوئی چِلا ہو کوئی وِرد بتا وہ آن ملے مُجھے جینے کا سامان ملے گر نہیں تو میری عرضی مان مُجھے مانگنے کا ہی ڈھنگ سِکھا کہ اشّک بہیں میرے سجّدوں میں اور ہونٹ تھرا تھر کانپیں بّس میری خاموشی کو بھّید مِلے کوئی حرف ادا نہ ہو لیکن میری ہر اِک آہ کا شور وہاں سرِ عرش مچّے میرے اشکوں میں کوئی رنگ مِلا میرے خالی پن میں پُھول کِھلا مُجھے یار ملا سرکار ملا اے مالک و مُلک، اے شاہ سائیں مُجھے اور نہ کوئی چاہ سائیں مری عرضی مان، نہ خالی موڑ مُجھے مان بہت مرا مان نہ توڑ چل پیر سائیں کوئی آیّت پُھونک کوئی ایسا اِسمِ اعظم پڑھ وہ آنکھیں میری ہوجائیں ۔ کوئی ایسا جادو ٹونہ کر۔ مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو۔ یوں الٹ پلٹ کر گردش کی۔ میں شمع، وہ پروانہ ہو۔ زرا دیکھ کے چال ستاروں کی۔ کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ۔ جو کر دے بخت سکندر سا کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر۔ کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے ۔ کوئی ایسا دے تعویز مجھے۔ وہ مجھ پر عاشق ہو جائے۔۔ کوئی فال نکال کرشمہ گر ۔ مری راہ میں پھول گلاب آئیں۔ کوئی پانی پھوک کے دے ایسا۔ وہ پئے تو میرے خواب آئیں۔ کوئی ایسا کالا جادو کر جو جگمگ کر دے میرے دن۔ وہ کہے مبارک جلدی آ ۔ اب جیا نہ جائے تیرے بن۔ کوئی ایسی رہ پہ ڈال مجھے ۔ جس رہ سے وہ دلدار ملے۔ کوئی تسبیح دم درود بتا ۔ جسے پڑھوں تو میرا یار ملے کوئی قابو کر بے قابو جن۔ کوئی سانپ نکال پٹاری سے کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا کوئی منکا اکشا دھاری سے ۔ کوئی ایسا بول سکھا دے نا۔ وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں۔ کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے ۔ وہ جانے ، جان نثار ہوں میں۔ کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستوری لا۔ اسے لگے میں چاند کے جیسی ہوں ۔ جو مرضی میرے یار کی ہے۔ اسے لگے میں بالکل ویسی ہوں۔ کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ۔ جو اشک بہا دے سجدوں میں۔ اور جیسے تیرا دعوی ہے محبوب ہو میرے قدموں میں ۔ پر عامل رک، اک بات کہوں۔ یہ قدموں والی بات ہے کیا ؟ محبوب تو ہے سر آنکھوں پر۔ مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا۔ اور عامل سن یہ کام بدل۔ یہ کام بہت نقصان کا ہے۔ سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں۔ جو مالک کل جہان کا ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)