Wednesday, 2 January 2019
چل پیر سائیں کوئی آیّت پُھونک کوئی ایسا اِسمِ اعظم پڑھ
چل پیر سائیں کوئی آیّت پُھونک کوئی ایسا اِسمِ اعظم پڑھ وہ آنکھیں میری ہو جائیں کوئی صوم صلوٰۃ دُرُود بتا کہ وجّد وُجُود میں آ جائے کوئی تسبیح ہو کوئی چِلا ہو کوئی وِرد بتا وہ آن ملے مُجھے جینے کا سامان ملے گر نہیں تو میری عرضی مان مُجھے مانگنے کا ہی ڈھنگ سِکھا کہ اشّک بہیں میرے سجّدوں میں اور ہونٹ تھرا تھر کانپیں بّس میری خاموشی کو بھّید مِلے کوئی حرف ادا نہ ہو لیکن میری ہر اِک آہ کا شور وہاں سرِ عرش مچّے میرے اشکوں میں کوئی رنگ مِلا میرے خالی پن میں پُھول کِھلا مُجھے یار ملا سرکار ملا اے مالک و مُلک، اے شاہ سائیں مُجھے اور نہ کوئی چاہ سائیں مری عرضی مان، نہ خالی موڑ مُجھے مان بہت مرا مان نہ توڑ چل پیر سائیں کوئی آیّت پُھونک کوئی ایسا اِسمِ اعظم پڑھ وہ آنکھیں میری ہوجائیں ۔ کوئی ایسا جادو ٹونہ کر۔ مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو۔ یوں الٹ پلٹ کر گردش کی۔ میں شمع، وہ پروانہ ہو۔ زرا دیکھ کے چال ستاروں کی۔ کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ۔ جو کر دے بخت سکندر سا کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر۔ کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے ۔ کوئی ایسا دے تعویز مجھے۔ وہ مجھ پر عاشق ہو جائے۔۔ کوئی فال نکال کرشمہ گر ۔ مری راہ میں پھول گلاب آئیں۔ کوئی پانی پھوک کے دے ایسا۔ وہ پئے تو میرے خواب آئیں۔ کوئی ایسا کالا جادو کر جو جگمگ کر دے میرے دن۔ وہ کہے مبارک جلدی آ ۔ اب جیا نہ جائے تیرے بن۔ کوئی ایسی رہ پہ ڈال مجھے ۔ جس رہ سے وہ دلدار ملے۔ کوئی تسبیح دم درود بتا ۔ جسے پڑھوں تو میرا یار ملے کوئی قابو کر بے قابو جن۔ کوئی سانپ نکال پٹاری سے کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا کوئی منکا اکشا دھاری سے ۔ کوئی ایسا بول سکھا دے نا۔ وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں۔ کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے ۔ وہ جانے ، جان نثار ہوں میں۔ کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستوری لا۔ اسے لگے میں چاند کے جیسی ہوں ۔ جو مرضی میرے یار کی ہے۔ اسے لگے میں بالکل ویسی ہوں۔ کوئی ایسا اسم اعظم پڑھ۔ جو اشک بہا دے سجدوں میں۔ اور جیسے تیرا دعوی ہے محبوب ہو میرے قدموں میں ۔ پر عامل رک، اک بات کہوں۔ یہ قدموں والی بات ہے کیا ؟ محبوب تو ہے سر آنکھوں پر۔ مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا۔ اور عامل سن یہ کام بدل۔ یہ کام بہت نقصان کا ہے۔ سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں۔ جو مالک کل جہان کا ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment