Fundayforum.com A Pakistani Urdu Community Forum

Tuesday, 26 February 2019

Fazal Din Pharmacy Dc Road Gujranwala #wanitaxigo


وہ مجھ سے ستاروں کا پتہ پوچھ رہا ہے

وہ مجھ سے ستاروں کا پتہ پوچھ رہا ہے عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں وہ مجھ سے ستاروں کا پتہ پوچھ رہا ہے پتھر کی طرح جس کی انگوٹھی میں جڑی ہوں الفاظ نہ آواز نہ ہم راز نہ دم ساز یہ کیسے دوراہے پہ میں خاموش کھڑی ہوں اس دشت بلا میں نہ سمجھ خود کو اکیلا میں چوب کی صورت ترے خیمے میں گڑی ہوں پھولوں پہ برستی ہوں کبھی صورت شبنم بدلی ہوئی رت میں کبھی ساون کی جھڑی ہوں

Sunday, 24 February 2019

مُحبت یَاد رَکھتـــــی ہے

مُحبت یَاد رَکھتـــــی ہے مُحبت خُود بَتاتـــــــــی ہے کَـــہاں کِس کَا ٹِھکَانـــہ ہے کِسے آنکھوں میں رَکھنا ہے کِسے دِل مِیں بَــــــــسانا ہے رِہا کَرنا ہے کِـــــس کو کِسے زَنجیر کَــــرنا ہے مِٹَانا ہـے کِسے دِل سے کِسے تِحرِیر کَـــرنا ہے گَھرَوندَا کَب گِرَانا ہے کَـــہاں تَعمِیر کَرنا ہے اِسے مَعــــلوم ہَوتا ہے سَفر دُشـــوَار کِتنا ہے کِسی کی چَشمِ گِریہٴ میں چُھپا اِقــــــــــــرَار کِتنا ہے شَجر جَو گــــــِرنے وَالا ہے وُہ سَایــــــــــہ دَار کِتنا ہے سَفر کـی ہَر صَعوبَت اور تَمازَت یَاد رَکھتِــــــی ہے جِسے ســَارے بُھلا ڈَالیں مُحبت یَاد رَکھتـــــی ہے

Thursday, 21 February 2019

بھوک و افلاس

بھوک و افلاس ....کی ماری ہوئی اس دنیا میں عشق ہی صرف حقیقت نہیں ، کچھ اور بھی ہے

تم کو وحشت تو سکھا دی ہے

تم کو وحشت تو سکھا دی ہے تم کو وحشت تو سکھا دی ہے، گزارے لائق اور کوئی حکم،؟ کوئی کام،؟ ہمارے لائق،؟ معذرت! میں تو کسی اور کے مصرف میں ہوں ڈھونڈ دیتا ہوں مگر کوئی،،،،،،،، تمہارے لائق ایک دو زخموں کی گہرائی اور آنکھوں کے کھنڈر اور کچھ خاص نہیں مجھ میں،،،،،،، نظارے لائق گھونسلہ، چھاؤں، ہرا رنگ، ثمر، کچھ بھی نہیں دیکھ،،،،،، مجھ جیسے شجر ہوتے ہیں آرے لائق دو وجوہات پہ،،،،،،، اس دل کی اسامی نہ ملی ایک-> درخواست گزار اتنے؛ دو-> سارے لائق اس علاقے میں اجالوں کی جگہ کوئی نہیں صرف پرچم ہے یہاں،،،،، چاند ستارے لائق مجھ نکمے کو چنا اس نے ترس کھا کے ! دیکھتے رہ گئے حسرت سے، بچارے لائق

Mere Be-khaber tuje kaya pata- Urdu Poetry

میرے بے خبر تُجھے کیا پتا تيری آرزوں کے دوش پر تيری کيفِيت کے جام میں میں جو کِتنی صديوں سے قید ہوں تيرے نقش میں، تيرے نام میں میرے زاِئچے، میرے راستے میرے ليکھ کی یہ نِشانِياں تيری چاہ میں ہیں رُکی ہوئی کبھی آنسوں کی قِطار میں کبھی پتھروں کے حِصار میں کبھی دشتِ ہجر کی رات میں کبھی بدنصيبی کی گھاٹ میں کئی رنگ دھوپ سے جل گئے کئی چاند شاخ سے ڈھل گئے کئی تُن سُلگ کے پگھل گئے تيری اُلفتوں کے قیام میں تيرے درد کے در و بام میں کوئی کب سے ثبتِ صليب ہے تيری کائنات کی رات میں تيرے اژدھام کی شام میں تُجھے کیا خبر تُجھے کیا پتا میرے خواب ميری کہانیاں میرے بے خبر تُجھے کیا پتا !!!!! [gallery640x480] [photo=https://i.imgflip.com/2ahvbo.jpg]Sad Boy[/photo] [photo=https://www.storemypic.com/images/2016/11/23/where-are-you-sad-db126.gif]Where are you[/photo] [photo=https://ift.tt/2GXt08H Urdu Poetry[/photo] [/gallery]

Wednesday, 20 February 2019

عشق میں ضبط کا یہ بھی کوئی پہلو ہو گا

عشق میں ضبط کا یہ بھی کوئی پہلو ہو گا جو میری آنکھ سے ٹپکا، تیرا آنسو ہو گا ایک پَل کو تیری یاد آئے تو مَیں سوچتا ہوُں خواب کے دشت میں بھٹکا ہوُا آہُو ہو گا تجھ کو محسوس کروں، مس نہ مگر کر پاؤں کیا خبر تھی کہ تو اِک پیکرِ خوشبو ہو گا اب سمیٹا ہے تو پھر مُجھ کو ادھُورا نہ سمیٹ زیرِ سر سنگ نہ ہو گا، میرا بازُو ہو گا مجھ کو معلوُم نہ تھی ہجر کی یہ رمز، کہ توُ جب میرے پاس نہ ہو گا تو ہر سُو ہو گا اِس توقّع پہ مَیں اب حشر کے دن گِنتا ہوُں حشر میں، اور کوئی ہو کہ نہ ہو، تُو ہو گا احمد ندیم قاسمی

Sath Chalte Ja Rahe Hain - Basheer Badar

ساتھ چلتے جا رہے ہیں ساتھ چلتے جا رہے ہیں پاس آ سکتے نہیں اک ندی کے دو کناروں کو ملا سکتے نہیں دینے والے نے دیا سب کچھ عجب انداز سے سامنے دنیا پڑی ہے اور اٹھا سکتے نہیں اس کی بھی مجبوریاں ہیں میری بھی مجبوریاں روز ملتے ہیں مگر گھر میں بتا سکتے نہیں کس نے کس کا نام اینٹوں پر لکھا ہے خون سے اشتہاروں سے یہ دیواریں چھپا سکتے نہیں راز جب سینے سے باہر ہو گیا اپنا کہاں ریت پر بکھرے ہوئے آنسو اٹھا سکتے نہیں آدمی کیا ہے گزرتے وقت کی تصویر ہے جانے والے کو صدا دے کر بلا سکتے نہیں شہر میں رہتے ہوئے ہم کو زمانہ ہو گیا کون رہتا ہے کہاں کچھ بھی بتا سکتے نہیں اس کی یادوں سے مہکنے لگتا ہے سارا بدن پیار کی خوشبو کو سینے میں چھپا سکتے نہیں پتھروں کے برتنوں میں آنسووں کو کیا رکھیں پھول کو لفظوں کے گملوں میں کھلا سکتے نہیں بشیر بدر

Sunday, 17 February 2019

آؤ ذکر کریں

آؤ ذکر کریں آؤ ذکر کریں کچھ لمحوں کا اک چائے پیئں' اک چائے جيئں اک مگ ھو بھاپ اُڑاتا ھوا اک مگ ھو ساتھ نبھاتا سا کچھ مدھم سى سرگوشی میں بس ھوا کى آہٹ آتى ھو کچھ تم چپ ھو کچھ میں نہ کہوں بس ھم تم ھوں دو مگ شگ ھوں کچھ دھواں دھواں سا اٹھتا ھو اور سامنے رکھے عشق کے مگ يعنى چائے کے مگ اک گھونٹ بھریں دو سانس رکيں پل دو پل میں صدياں گزریں آؤ ذکر کریں آؤ چائے پیئں میری چائے میں تیرتے پتى کے کچھ دانے شانے سير پہ ھوں تیرى چائے میں ميٹھا رقص پہ ھو میری چائے کو تیرى نٹھ کھٹ سے تھوڑا دور رکھوں حل چل نہ ھو گڑ بڑ نہ ھو تیرى چائے کو اتنى خبر بھى ھو میری چائے کو میٹھا پسند نہیں تیرى چائے کا رنگ تھوڑا گہرا ہے تھوڑا ٹھہرا ہے میری چائے کا رنگ بڑا گدلا سا کچھ گاڑھا سا تھوڑا کڑوا سا میں سپ سپ کر کے جان بھروں تم گھونٹ گھونٹ میں ختم کرو ديکھو صبر کرو يہ چائے ھے... کونسا گھڑياں ہیں؟ کہ ختم کرو... تھوڑا صبر کرو چلو چھوڑو اب یہ نوک جھونک باتیں شاتيں کہيں تھک نہ جائیں خاموشى کى زباں میں بول کے ھم اور چائے آؤ چائے پیئں آؤ ذکر کریں کچھ دیر اس دنیا سے کٹ کر بس اپنی اپنی بات کریں تیرى گمشدگی مجھے راس نہیں آؤ اک دوجے میں سو جائیں آؤ چائے پیئں اور کھو جائیں کوئی رقص ھو بسمل بسمل سا کوئی تال بجے،،،کسى ساز پہ ھم دو چائے کے آخرى گھونٹ بھریں صدياں جى ليں دنیا بھوليں آؤ چائے پیئں

ﺗﻢ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺻﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ

ﺗﻢ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺻﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﺨﺖ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ ﺗﺎﺝ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﻭ ! ﮐﮧ ﻻﺝ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ؟ ﺗﻢ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺻﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺫﺭﺍ ﮐﺎﻡ ﮐﺎﺝ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﻋﻠﻢ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ؟ ﯾﺎ ﻓﻘﻂ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ ﮨﮯ ﻣﺮﻭّﺕ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﮧ ﺗﻢ ﭼَﮭﻠﻨﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ ﭼﮭﺎﺝ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺩﻭ ﮔﮭﮍﯼ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ﭘﯿﺎﺭ ﻭﺍﻟﮯ ! ﻣﺰﺍﺝ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ ﺍُﻥ ﻏﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﮨﮯ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻦ ﻏﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﻼﺝ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ ﯾﺎﺭ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺩﮐﮫ ﯾﺎﺭ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺎﺝ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﻧﭽﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ، ﻭﺍﮦ ﮨﺎﮞ ، ﺩﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺭﺍﺝ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ ﮨﻢ ﮨﯿﮟ ﺳﺎﺣﺮ ﻏﺮﯾﺐ ﺑﺪ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺗﻮ ﺍﻧﺎﺝ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮ

Saturday, 16 February 2019

بہت ہی مان ہے تم پر

بہت ہی مان ہے تم پر بہت ہی مان ہے تم پر سنو پاسِ وفا رکھنا سبھی سے تم ملو لیکن ذرا سا فاصلہ رکھنا بچھڑ جانا بھی تو پڑتا ہے ذرا سا حوصلہ رکھنا وہ سارے وصل کے لمحے تم آنکھوں میں سجا رکھنا ابھی تو امکان باقی ہے ابھی لب پہ دعا رکھنا بہت نایاب ہیں دیکھو ہمیں سب سے جدا رکھنا

Tuesday, 12 February 2019

. . . .اگر اجازت ہو

تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو میں دل کسی سے لگا لوں اگراجازت ہو تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو جنوں وہی ہے، وہی میں، مگر ہے شہر نیا یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو کسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پھر بھی میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو جون ایلیا

Looking for love - valentine day 2019 animated gif #wanitaxigo


la la land love dance- valentine day 2019 #wanitaxigo


I love you heart shot - valentine day 2019 animated gif image #wanitaxigo


I love you berry berry much animated gif valentine day 2019 #wanitaxigo


I love you animated glitter image With Quotes #wanitaxigo


Happy-Valentines-Day-Quotes #wanitaxigo


happy-valentines-day-my-friend-quotes-happy-valentines-day-my-friend #wanitaxigo


Happy-Valentine 2019 -sweet-glitter with quotes #wanitaxigo


Saturday, 9 February 2019

Dard e tanhai

اب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسے کہتے ہیں چار سو گونجتی رسوائی کسے کہتے ہیں اب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو کوئی لمحہ ہو تِری یاد میں کھو جاتے ہیں اب تو خود کو بھی میسر نہیں آپاتے ہیں رات ہو دن ہو ترے پیار میں ہم بہتے ہیں درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسے کہتے ہیں اَب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو جو بھی غم آئے اُسے دل پہ سہا کرتے تھے ایک وہ وقت تھا ہم مل کے رہا کرتے تھے اب اکیلے ہی زمانے کے ستم سہتے ہیں درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسے کہتے ہیں اب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو ہم نے خوداپنے ہی رستے میں بچھائے کانٹے گھر میں پھولوں کی جگہ لاکے سجائے کانٹے زخم اس دِل میں بسائے ہوئے خود رہتے ہیں درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسی کہتے ہیں اب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو یوں تو دنیا کی ہر اک چیزحسیں ہوتی ہے پیار سے بڑھ کے مگر کچھ بھی نہیں ہوتی ہے راستہ روک کے ہر اک سے یہی کہتے ہیں اب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسے کہتے ہیں چار سو گونجتی رسوائی کسے کہتے ہیں اب جو بچھڑے ہیں تو……….!!

Monday, 4 February 2019

ہم نے تری خاطر سے دل زار بھی چھوڑا

ہم نے تری خاطر سے دل زار بھی چھوڑا تو بھی نہ ہوا یار اور اک یار بھی چھوڑا کیا ہوگا رفوگر سے رفو میرا گریبان اے دست جنوں تو نے نہیں تار بھی چھوڑا دیں دے کے گیا کفر کے بھی کام سے عاشق تسبیح کے ساتھ اس نے تو زنار بھی چھوڑا گوشہ میں تری چشم سیہ مست کے دل نے کی جب سے جگہ خانۂ خمار بھی چھوڑا اس سے ہے غریبوں کو تسلی کہ اجل نے مفلس کو جو مارا تو نہ زردار بھی چھوڑا ٹیڑھے نہ ہو ہم سے رکھو اخلاص تو سیدھا تم پیار سے رکتے ہو تو لو پیار بھی چھوڑا کیا چھوڑیں اسیران محبت کو وہ جس نے صدقے میں نہ اک مرغ گرفتار بھی چھوڑا پہنچی مری رسوائی کی کیونکر خبر اس کو اس شوخ نے تو دیکھنا اخبار بھی چھوڑا کرتا تھا جو یاں آنے کا جھوٹا کبھی اقرار مدت سے ظفرؔ اس نے وہ اقرار بھی چھوڑا www.fundayforum.com

دیکھو انساں خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے

دیکھو انساں خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے بولتا ہے اس میں کیا وہ بولتا کیا چیز ہے روبرو اس زلف کے دام بلا کیا چیز ہے اس نگہ کے سامنے تیر قضا کیا چیز ہے یوں تو ہیں سارے بتاں غارتگر ایمان و دیں ایک وہ کافر صنم نام خدا کیا چیز ہے جس نے دل میرا دیا دام محبت میں پھنسا وہ نہیں معلوم مج کو ناصحا کیا چیز ہے ہووے اک قطرہ جو زہراب محبت کا نصیب خضر پھر تو چشمۂ آب بقا کیا چیز ہے مرگ ہی صحت ہے اس کی مرگ ہی اس کا علاج عشق کا بیمار کیا جانے دوا کیا چیز ہے دل مرا بیٹھا ہے لے کر پھر مجھی سے وہ نگار پوچھتا ہے ہاتھ میں میرے بتا کیا چیز ہے خاک سے پیدا ہوئے ہیں دیکھ رنگا رنگ گل ہے تو یہ ناچیز لیکن اس میں کیا کیا چیز ہے جس کی تجھ کو جستجو ہے وہ تجھی میں ہے ظفرؔ ڈھونڈتا پھر پھر کے تو پھر جا بجا کیا چیز ہے

اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل

اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل کم ظرف پر غرور ذرا اپنا ظرف دیکھ مانند جوش غم نہ زیادہ ابل کے چل فرصت ہے اک صدا کی یہاں سوز دل کے ساتھ اس پر سپند وار نہ اتنا اچھل کے چل یہ غول وش ہیں ان کو سمجھ تو نہ رہ نما سائے سے بچ کے اہل فریب و دغل کے چل اوروں کے بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل بل ہے تو بل کے بل پہ تو کچھ اپنے بل کے چل انساں کو کل کا پتلا بنایا ہے اس نے آپ اور آپ ہی وہ کہتا ہے پتلے کو کل کے چل پھر آنکھیں بھی تو دیں ہیں کہ رکھ دیکھ کر قدم کہتا ہے کون تجھ کو نہ چل چل سنبھل کے چل ہے طرفہ امن گاہ نہاں خانۂ عدم آنکھوں کے روبرو سے تو لوگوں کے ٹل کے چل کیا چل سکے گا ہم سے کہ پہچانتے ہیں ہم تو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کے چل ہے شمع سر کے بل جو محبت میں گرم ہو پروانہ اپنے دل سے یہ کہتا ہے جل کے چل بلبل کے ہوش نکہت گل کی طرح اڑا گلشن میں میرے ساتھ ذرا عطر مل کے چل گر قصد سوئے دل ہے ترا اے نگاہ یار دو چار تیر پیک سے آگے اجل کے چل جو امتحان طبع کرے اپنا اے ظفرؔ تو کہہ دو اس کو طور پہ تو اس غزل کے چل

اس گلی کے لوگوں کو منہ لگا کے پچھتائے

اس گلی کے لوگوں کو منہ لگا کے پچھتائے ایک درد کی خاطر کتنے درد اپنائے تھک کے سو گیا سورج شام کے دھندلکوں میں آج بھی کئی غنچے پھول بن کے مرجھائے ہم ہنسے تو آنکھوں میں تیرنے لگی شبنم تم ہنسے تو گلشن نے تم پہ پھول برسائے اس گلی میں کیا کھویا اس گلی میں کیا پایا تشنہ کام پہنچے تھے تشنہ کام لوٹ آئے پھر رہی ہیں آنکھوں میں تیرے شہر کی گلیاں ڈوبتا ہوا سورج پھیلتے ہوئے سائے جالبؔ ایک آوارہ الجھنوں کا گہوارہ کون اس کو سمجھائے کون اس کو سلجھائے

باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں

باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں سوچا ہے خموشی سے ہر اک زہر کو پی جائیں اپنا تو نہیں کوئی وہاں پوچھنے والا اس بزم میں جانا ہے جنہیں اب تو وہی جائیں اب تجھ سے ہمیں کوئی تعلق نہیں رکھنا اچھا ہو کہ دل سے تری یادیں بھی چلی جائیں اک عمر اٹھائے ہیں ستم غیر کے ہم نے اپنوں کی تو اک پل بھی جفائیں نہ سہی جائیں جالبؔ غم دوراں ہو کہ یاد رخ جاناں تنہا مجھے رہنے دیں مرے دل سے سبھی جائیں

یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم

یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم مدت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم شاید بہ قید زیست یہ ساعت نہ آ سکے تم داستان شوق سنو اور سنائیں ہم بے نور ہو چکی ہے بہت شہر کی فضا تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے جالبؔ چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم

تنہائی کا دکھ گہرا تھا

تنہائی کا دکھ گہرا تھا میں دریا دریا روتا تھا ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ میں طوفانوں سے کھیلا تھا تنہائی کا تنہا سایا دیر سے میرے ساتھ لگا تھا چھوڑ گئے جب سارے ساتھی تنہائی نے ساتھ دیا تھا سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی تنہائی کا پھول کھلا تھا تنہائی میں یاد خدا تھی تنہائی میں خوف خدا تھا تنہائی محراب عبادت تنہائی منبر کا دیا تھا تنہائی مرا پائے شکستہ تنہائی مرا دست دعا تھا وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا تنہائی مرے دل کی جنت میں تنہا ہوں میں تنہا تھا

تنہائی کا دکھ گہرا تھا

تنہائی کا دکھ گہرا تھا میں دریا دریا روتا تھا ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ میں طوفانوں سے کھیلا تھا تنہائی کا تنہا سایا دیر سے میرے ساتھ لگا تھا چھوڑ گئے جب سارے ساتھی تنہائی نے ساتھ دیا تھا سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی تنہائی کا پھول کھلا تھا تنہائی میں یاد خدا تھی تنہائی میں خوف خدا تھا تنہائی محراب عبادت تنہائی منبر کا دیا تھا تنہائی مرا پائے شکستہ تنہائی مرا دست دعا تھا وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا تنہائی مرے دل کی جنت میں تنہا ہوں میں تنہا تھا

ناز بیگانگی میں کیا کچھ تھا

ناز بیگانگی میں کیا کچھ تھا حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا لاکھ راہیں تھیں لاکھ جلوے تھے عہد آوارگی میں کیا کچھ تھا آنکھ کھلتے ہی چھپ گئی ہر شے عالم بے خودی میں کیا کچھ تھا یاد ہیں مرحلے محبت کے ہائے اس بیکلی میں کیا کچھ تھا کتنے بیتے دنوں کی یاد آئی آج تیری کمی میں کیا کچھ تھا کتنے مانوس لوگ یاد آئے صبح کی چاندنی میں کیا کچھ تھا رات بھر ہم نہ سو سکے ناصرؔ پردۂ خامشی میں کیا کچھ تھا

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

جنھيں ميں ڈھونڈتا تھا آسمانوں ميں زمينوں ميں

جنھيں ميں ڈھونڈتا تھا آسمانوں ميں زمينوں ميں وہ نکلے ميرے ظلمت خانہ دل کے مکينوں ميں حقيقت اپني آنکھوں پر نماياں جب ہوئي اپني مکاں نکلا ہمارے خانہ دل کے مکينوں ميں اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہہ سائي سے تو سنگ آستاں کعبہ جا ملتا جبينوں ميں کبھي اپنا بھي نظارہ کيا ہے تو نے اے مجنوں کہ ليلی کي طرح تو خود بھي ہے محمل نشينوں ميں مہينے وصل کے گھڑيوں کي صورت اڑتے جاتے ہيں مگر گھڑياں جدائي کي گزرتي ہيں مہينوں ميں مجھے روکے گا تو اے ناخدا کيا غرق ہونے سے کہ جن کو ڈوبنا ہو ، ڈوب جاتے ہيں سفينوں ميں چھپايا حسن کو اپنے کليم اللہ سے جس نے وہي ناز آفريں ہے جلوہ پيرا نازنينوں ميں جلا سکتي ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کي الہي! کيا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سينوں ميں تمنا درد دل کي ہو تو کر خدمت فقيروں کي نہيں ملتا يہ گوہر بادشاہوں کے خزينوں ميں نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کي ، ارادت ہو تو ديکھ ان کو يد بيضا ليے بيٹھے ہيں اپني آستينوں ميں ترستي ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو وہ رونق انجمن کي ہے انھي خلوت گزينوں ميں کسي ايسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو کہ خورشيد قيامت بھي ہو تيرے خوشہ چينوں ميں محبت کے ليے دل ڈھونڈ کوئي ٹوٹنے والا يہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہيں نازک آبگينوں ميں سراپا حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق بھلا اے دل حسيں ايسا بھي ہے کوئي حسينوں ميں پھڑک اٹھا کوئي تيري ادائے 'ما عرفنا' پر ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرينوں ميں نماياں ہو کے دکھلا دے کبھي ان کو جمال اپنا بہت مدت سے چرچے ہيں ترے باريک بينوں ميں خموش اے دل! ، بھري محفل ميں چلانا نہيں اچھا ادب پہلا قرينہ ہے محبت کے قرينوں ميں برا سمجھوں انھيں مجھ سے تو ايسا ہو نہيں سکتا کہ ميں خود بھي تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چينوں ميں

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں زجاج کی یہ عمارت ہے سنگ خارہ نہیں خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں مگر یہ حوصلۂ مرد ہیچ کارہ نہیں ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے کہ خاک زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں یہیں بہشت بھی ہے، حور و جبرئیل بھی ہے تری نگہ میں ابھی شوخی نظارہ نہیں مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں غضب ہے عین کرم میں بخیل ہے فطرت کہ لعل ناب میں آتش تو ہے شرارہ نہیں

Shohar lakh bhala chahye tu kaya huta hy - Funny poetry

شوہر لاکھ بھلا چاہے تو کیا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے جو بیگم نے کہا ہوتا ہے غم ہو کس بات کا بیگم کو خریداری کا بل تو شوہر کے ہی بٹوے سے ادا ہوتا ہے درد جوڑوں کا بس جوڑے ہی جانتے ہیں اور اس درد کا درماں بھی کہاں ہوتاہے ایک طرف ماں ہے اور دوسری جانب بیگم جیسے آلو کوئی سینڈوچ میں دبا ہوتا ہے بعد شادی کے یہی کہتا پھرے ہے شوہر وقتِ کنوارگی کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے [gallery640x480] [photo=https://i.pinimg.com/originals/9c/6a/ef/9c6aefabe2798beedbdac7341d402183.png]Husband wife funny, I miss you[/photo] [photo=https://lh3.googleusercontent.com/-obsIq1raTC4/Vh6gjkdMEjI/AAAAAAAAAEQ/H7k61V-Gk4k/w530-h383-n-rw/Husband%2BWife%2BBiggest%2BProblem%2BJoke%25281%2529.jpg]funny husband wife pic[/photo] [/gallery]

img002.jpg #wanitaxigo


beautiful-bloom-blooming-658687.jpg #wanitaxigo


Saturday, 2 February 2019

ہم نے تری خاطر سے دل زار بھی چھوڑا

ہم نے تری خاطر سے دل زار بھی چھوڑا تو بھی نہ ہوا یار اور اک یار بھی چھوڑا کیا ہوگا رفوگر سے رفو میرا گریبان اے دست جنوں تو نے نہیں تار بھی چھوڑا دیں دے کے گیا کفر کے بھی کام سے عاشق تسبیح کے ساتھ اس نے تو زنار بھی چھوڑا گوشہ میں تری چشم سیہ مست کے دل نے کی جب سے جگہ خانۂ خمار بھی چھوڑا اس سے ہے غریبوں کو تسلی کہ اجل نے مفلس کو جو مارا تو نہ زردار بھی چھوڑا ٹیڑھے نہ ہو ہم سے رکھو اخلاص تو سیدھا تم پیار سے رکتے ہو تو لو پیار بھی چھوڑا کیا چھوڑیں اسیران محبت کو وہ جس نے صدقے میں نہ اک مرغ گرفتار بھی چھوڑا پہنچی مری رسوائی کی کیونکر خبر اس کو اس شوخ نے تو دیکھنا اخبار بھی چھوڑا کرتا تھا جو یاں آنے کا جھوٹا کبھی اقرار مدت سے ظفرؔ اس نے وہ اقرار بھی چھوڑا www.fundayforum.com

دیکھو انساں خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے

دیکھو انساں خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے بولتا ہے اس میں کیا وہ بولتا کیا چیز ہے روبرو اس زلف کے دام بلا کیا چیز ہے اس نگہ کے سامنے تیر قضا کیا چیز ہے یوں تو ہیں سارے بتاں غارتگر ایمان و دیں ایک وہ کافر صنم نام خدا کیا چیز ہے جس نے دل میرا دیا دام محبت میں پھنسا وہ نہیں معلوم مج کو ناصحا کیا چیز ہے ہووے اک قطرہ جو زہراب محبت کا نصیب خضر پھر تو چشمۂ آب بقا کیا چیز ہے مرگ ہی صحت ہے اس کی مرگ ہی اس کا علاج عشق کا بیمار کیا جانے دوا کیا چیز ہے دل مرا بیٹھا ہے لے کر پھر مجھی سے وہ نگار پوچھتا ہے ہاتھ میں میرے بتا کیا چیز ہے خاک سے پیدا ہوئے ہیں دیکھ رنگا رنگ گل ہے تو یہ ناچیز لیکن اس میں کیا کیا چیز ہے جس کی تجھ کو جستجو ہے وہ تجھی میں ہے ظفرؔ ڈھونڈتا پھر پھر کے تو پھر جا بجا کیا چیز ہے

اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل

اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل کم ظرف پر غرور ذرا اپنا ظرف دیکھ مانند جوش غم نہ زیادہ ابل کے چل فرصت ہے اک صدا کی یہاں سوز دل کے ساتھ اس پر سپند وار نہ اتنا اچھل کے چل یہ غول وش ہیں ان کو سمجھ تو نہ رہ نما سائے سے بچ کے اہل فریب و دغل کے چل اوروں کے بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل بل ہے تو بل کے بل پہ تو کچھ اپنے بل کے چل انساں کو کل کا پتلا بنایا ہے اس نے آپ اور آپ ہی وہ کہتا ہے پتلے کو کل کے چل پھر آنکھیں بھی تو دیں ہیں کہ رکھ دیکھ کر قدم کہتا ہے کون تجھ کو نہ چل چل سنبھل کے چل ہے طرفہ امن گاہ نہاں خانۂ عدم آنکھوں کے روبرو سے تو لوگوں کے ٹل کے چل کیا چل سکے گا ہم سے کہ پہچانتے ہیں ہم تو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کے چل ہے شمع سر کے بل جو محبت میں گرم ہو پروانہ اپنے دل سے یہ کہتا ہے جل کے چل بلبل کے ہوش نکہت گل کی طرح اڑا گلشن میں میرے ساتھ ذرا عطر مل کے چل گر قصد سوئے دل ہے ترا اے نگاہ یار دو چار تیر پیک سے آگے اجل کے چل جو امتحان طبع کرے اپنا اے ظفرؔ تو کہہ دو اس کو طور پہ تو اس غزل کے چل

اس گلی کے لوگوں کو منہ لگا کے پچھتائے

اس گلی کے لوگوں کو منہ لگا کے پچھتائے ایک درد کی خاطر کتنے درد اپنائے تھک کے سو گیا سورج شام کے دھندلکوں میں آج بھی کئی غنچے پھول بن کے مرجھائے ہم ہنسے تو آنکھوں میں تیرنے لگی شبنم تم ہنسے تو گلشن نے تم پہ پھول برسائے اس گلی میں کیا کھویا اس گلی میں کیا پایا تشنہ کام پہنچے تھے تشنہ کام لوٹ آئے پھر رہی ہیں آنکھوں میں تیرے شہر کی گلیاں ڈوبتا ہوا سورج پھیلتے ہوئے سائے جالبؔ ایک آوارہ الجھنوں کا گہوارہ کون اس کو سمجھائے کون اس کو سلجھائے

باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں

باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں سوچا ہے خموشی سے ہر اک زہر کو پی جائیں اپنا تو نہیں کوئی وہاں پوچھنے والا اس بزم میں جانا ہے جنہیں اب تو وہی جائیں اب تجھ سے ہمیں کوئی تعلق نہیں رکھنا اچھا ہو کہ دل سے تری یادیں بھی چلی جائیں اک عمر اٹھائے ہیں ستم غیر کے ہم نے اپنوں کی تو اک پل بھی جفائیں نہ سہی جائیں جالبؔ غم دوراں ہو کہ یاد رخ جاناں تنہا مجھے رہنے دیں مرے دل سے سبھی جائیں

یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم

یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم مدت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم شاید بہ قید زیست یہ ساعت نہ آ سکے تم داستان شوق سنو اور سنائیں ہم بے نور ہو چکی ہے بہت شہر کی فضا تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے جالبؔ چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم