Wednesday, 20 February 2019
عشق میں ضبط کا یہ بھی کوئی پہلو ہو گا
عشق میں ضبط کا یہ بھی کوئی پہلو ہو گا جو میری آنکھ سے ٹپکا، تیرا آنسو ہو گا ایک پَل کو تیری یاد آئے تو مَیں سوچتا ہوُں خواب کے دشت میں بھٹکا ہوُا آہُو ہو گا تجھ کو محسوس کروں، مس نہ مگر کر پاؤں کیا خبر تھی کہ تو اِک پیکرِ خوشبو ہو گا اب سمیٹا ہے تو پھر مُجھ کو ادھُورا نہ سمیٹ زیرِ سر سنگ نہ ہو گا، میرا بازُو ہو گا مجھ کو معلوُم نہ تھی ہجر کی یہ رمز، کہ توُ جب میرے پاس نہ ہو گا تو ہر سُو ہو گا اِس توقّع پہ مَیں اب حشر کے دن گِنتا ہوُں حشر میں، اور کوئی ہو کہ نہ ہو، تُو ہو گا احمد ندیم قاسمی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment