دکھ
کہتا ہے ایک دن مجھ سے
بڑا دکھ ہے مجھے
میں نے پوچھا
کس بات کا دکھ؟
کہتا ہے بس کچھ ہے
میں نے پوچھا
کھانا پیٹ بھر کر کھاتے ہو؟
کہتا ہے ہاں
پھر پوچھا
کوئی بیماری تو نہیں؟
کہتا ہے نہیں
پھر پوچھا اعضاء سلامت ہیں؟
کہتا ہے ہاں
سر پہ چھت ہے؟
کہتا ہے ہاں
پھر میں لے گئی اس کو ایک ایسی جگہ
جہاں قحط تھا
بچوں کے جسم لباس سے عاری
اور پیٹ اناج سے خالی
سونے کو چھت نہیں
نہ سردی کی لذت
نہ گرمی کی ہیبت
احساس جیسے باقی ہی نہ رہے
ایک اور ایسی جگہ
جہاں زندگی ایک جرم تھی
روز لاشیں گرتیں
عزتیں پامال ہوتیں
ظلم اپنی انتہا پہ
جہاں آتی جاتی سانسوں پہ بھی
شکر تھا کہ سلامت ہیں
پھر میں نے پوچھا
اب بتاؤ کوئی دکھ ہے باقی؟
کہتا ہے نہیں مجھے تو دکھ کے معنی
آج سمجھ آئے ہیں
No comments:
Post a Comment