ﻗﺎﺗﻞ ﮐﺎ ﺧُﺪﺍ ﺣﺎﻓﻆ .ﺑﺴﻤﻞ ﮐﺎ ﺧُﺪﺍ ﺣﺎﻓﻆ، ﻗﺎﺗﻞ ﮐﺎ ﺧُﺪﺍ ﺣﺎﻓﻆ
ﺗﻢ ﺟﺲ ﭘﮧ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﻮ، ﺍﺱ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺧُﺪﺍ ﺣﺎﻓﻆ
ﺁ ﺟﺎﺅ ﺟﻮ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ، ﺍﮎ ﺟﺎﻥ ﺳﯽ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍُﭨﮫ ﺟﺎﺅ ﺟﻮ ﻣﺤﻔﻞ ﺳﮯ، ﻣﺤﻔﻞ ﮐﺎ ﺧُﺪﺍ ﺣﺎﻓﻆ
ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻮ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺳﺎ، ﻣﻨﺰﻝ ﮐﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﮐﯿﺎ
ﮨﻢ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺳﻔﺮ ﭘﯿﺎﺭﺍ، ﻣﻨﺰﻝ ﮐﺎ ﺧﺪﺍ ﺣﺎﻓﻆ
ﺍﺏ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮨﯿﮟ، ﮐﺸﺘﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮨﮯ
ﺍﺏ ﻣﮍ ﮐﮯ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ، ﺳﺎﺣﻞ ﮐﺎ ﺧُﺪﺍ ﺣﺎﻓﻆ
Wednesday, 27 March 2019
Tuesday, 26 March 2019
وہ جسے
وہ جسے
بھولنے کی کوشش میں
میں نے مصروفیت کو اوڑھا تھا
رات کو ٹوٹتا بدن لے کر
جب گری تھی میں اپنے بستر پہ
اس کی یادوں نے بہت دیر تلک
میرے بالوں میں انگلیاں پھیریں
بھولنے کی کوشش میں
میں نے مصروفیت کو اوڑھا تھا
رات کو ٹوٹتا بدن لے کر
جب گری تھی میں اپنے بستر پہ
اس کی یادوں نے بہت دیر تلک
میرے بالوں میں انگلیاں پھیریں
Monday, 25 March 2019
جو اِسم و جسم کو باہم نِبھانے والا نہیں
جو اِسم و جسم کو باہم نِبھانے والا نہیں جو اِسم و جسم کو باہم نِبھانے والا نہیں
میں ایسے عشق پہ ایمان لانے والا نہیں
میں پاؤں دھو کے پئیوں یار بن کے جو آئے
منافقوں کو تو میں منہ لگا نے والا نہیں
نزول کر مرے سینے پہ اے جمال ِ شدید
تری قسم میں ترا خوف کھانے والا نہیں
بس اِتنا جان لے اے پُر کشش کے دل تجھ سے
بہل تو سکتا ہے پر تجھ پہ آنے والا نہیں
یہ میری آنکھ میں بھڑکے تو پھر ہٹاؤں گا
ابھی میں آگ سے نظریں ہٹانے والا نہیں
تجھے کسی نے غلط کہہ دیا میرے بارے
نہیں میاں میں دِلوں کو دُکھانے والا نہیں
ہے ایک رمز جو تجھ پر عیاں نہیں کرنی
ہے ایک شعر جو تجھ کو سنانے والا نہیں
فقیر قول نبھاتا ہے پریم کرتا ہے
فقیر کوئی کرامت دِکھانے والا نہیں
سن اے قبیلہء ِ کوفی دِلاں مُکرر سن
علی کبھی بھی حزیمت اُٹھانے والا نہیں
میں ایسے عشق پہ ایمان لانے والا نہیں
میں پاؤں دھو کے پئیوں یار بن کے جو آئے
منافقوں کو تو میں منہ لگا نے والا نہیں
نزول کر مرے سینے پہ اے جمال ِ شدید
تری قسم میں ترا خوف کھانے والا نہیں
بس اِتنا جان لے اے پُر کشش کے دل تجھ سے
بہل تو سکتا ہے پر تجھ پہ آنے والا نہیں
یہ میری آنکھ میں بھڑکے تو پھر ہٹاؤں گا
ابھی میں آگ سے نظریں ہٹانے والا نہیں
تجھے کسی نے غلط کہہ دیا میرے بارے
نہیں میاں میں دِلوں کو دُکھانے والا نہیں
ہے ایک رمز جو تجھ پر عیاں نہیں کرنی
ہے ایک شعر جو تجھ کو سنانے والا نہیں
فقیر قول نبھاتا ہے پریم کرتا ہے
فقیر کوئی کرامت دِکھانے والا نہیں
سن اے قبیلہء ِ کوفی دِلاں مُکرر سن
علی کبھی بھی حزیمت اُٹھانے والا نہیں
Sunday, 24 March 2019
زمانے بھر کو اداس کر کے
زمانے بھر کو اداس کر کے
خوشی کا ستیا ناس کر کے
میرے رقیبوں کو خاص کر کے
بہت ہی دوری سے پاس کر کے
تمہیں یہ لگتا تھا
جانے دیں گے ؟
سبھی کو جا کے ہماری باتیں
بتاؤ گے اور
بتانے دیں گے ؟
تم ہم سے ہٹ کر وصالِ ہجراں
مناؤ گے اور
منانے دیں گے ؟
میری نظم کو نیلام کر کے
کماؤ گے اور
کمانے دیں گے ؟
تو جاناں سن لو
اذیتوں کا ترانہ سن لو
کہ اب کوئی سا بھی حال دو تم
بھلے ہی دل سے نکال دو تم
کمال دو یا زوال دو تم
یا میری گندی مثال دو تم
میں پھر بھی جاناں ۔۔۔۔۔۔۔!
میں پھر بھی جاناں ۔۔۔
پڑا ہوا ہوں ، پڑا رہوں گا
گڑا ہوا ہوں ، گڑا رہوں گا
اب ہاتھ کاٹو یا پاؤں کاٹو
میں پھر بھی جاناں کھڑا رہوں گا
بتاؤں تم کو ؟
میں کیا کروں گا ؟
میں اب زخم کو زبان دوں گا
میں اب اذیت کو شان دوں گا
میں اب سنبھالوں گا ہجر والے
میں اب سبھی کو مکان دوں گا
میں اب بلاؤں گا سارے قاصد
میں اب جلاؤں گا سارے حاسد
میں اب تفرقے کو چیر کر پھر
میں اب مٹاؤں گا سارے فاسد
میں اب نکالوں گا سارا غصہ
میں اب اجاڑوں گا تیرا حصہ
میں اب اٹھاؤں گا سارے پردے
میں اب بتاؤں گا تیرا قصہ
مزید سُن لو۔۔۔
او نفرتوں کے یزید سن لو
میں اب نظم کا سہارا لوں گا
میں ہر ظلم کا کفارہ لوں گا
اگر تو جلتا ہے شاعری سے
تو یہ مزہ میں دوبارہ لوں گا
میں اتنی سختی سے کھو گیا ہوں
کہ اب سبھی کا میں ہو گیا ہوں
کوئی بھی مجھ سا نہی ملا جب
خود اپنے قدموں میں سو گیا ہوں
میں اب اذیت کا پیر ہوں جی
میں عاشقوں کا فقیر ہوں جی
کبھی میں حیدر کبھی علی ہوں
جو بھی ہوں اب اخیر ہوں جی
جون ایلیا
خوشی کا ستیا ناس کر کے
میرے رقیبوں کو خاص کر کے
بہت ہی دوری سے پاس کر کے
تمہیں یہ لگتا تھا
جانے دیں گے ؟
سبھی کو جا کے ہماری باتیں
بتاؤ گے اور
بتانے دیں گے ؟
تم ہم سے ہٹ کر وصالِ ہجراں
مناؤ گے اور
منانے دیں گے ؟
میری نظم کو نیلام کر کے
کماؤ گے اور
کمانے دیں گے ؟
تو جاناں سن لو
اذیتوں کا ترانہ سن لو
کہ اب کوئی سا بھی حال دو تم
بھلے ہی دل سے نکال دو تم
کمال دو یا زوال دو تم
یا میری گندی مثال دو تم
میں پھر بھی جاناں ۔۔۔۔۔۔۔!
میں پھر بھی جاناں ۔۔۔
پڑا ہوا ہوں ، پڑا رہوں گا
گڑا ہوا ہوں ، گڑا رہوں گا
اب ہاتھ کاٹو یا پاؤں کاٹو
میں پھر بھی جاناں کھڑا رہوں گا
بتاؤں تم کو ؟
میں کیا کروں گا ؟
میں اب زخم کو زبان دوں گا
میں اب اذیت کو شان دوں گا
میں اب سنبھالوں گا ہجر والے
میں اب سبھی کو مکان دوں گا
میں اب بلاؤں گا سارے قاصد
میں اب جلاؤں گا سارے حاسد
میں اب تفرقے کو چیر کر پھر
میں اب مٹاؤں گا سارے فاسد
میں اب نکالوں گا سارا غصہ
میں اب اجاڑوں گا تیرا حصہ
میں اب اٹھاؤں گا سارے پردے
میں اب بتاؤں گا تیرا قصہ
مزید سُن لو۔۔۔
او نفرتوں کے یزید سن لو
میں اب نظم کا سہارا لوں گا
میں ہر ظلم کا کفارہ لوں گا
اگر تو جلتا ہے شاعری سے
تو یہ مزہ میں دوبارہ لوں گا
میں اتنی سختی سے کھو گیا ہوں
کہ اب سبھی کا میں ہو گیا ہوں
کوئی بھی مجھ سا نہی ملا جب
خود اپنے قدموں میں سو گیا ہوں
میں اب اذیت کا پیر ہوں جی
میں عاشقوں کا فقیر ہوں جی
کبھی میں حیدر کبھی علی ہوں
جو بھی ہوں اب اخیر ہوں جی
جون ایلیا
Saturday, 23 March 2019
تمُ اگر جو پُوچھو نا
تمُ اگر جو پُوچھو نا
تمُ اگر جو پُوچھو نا
مجھ سے یہ کہ کیا ہو تم
میں کہوں گی تم جانان
آسْمانِ اُلفَت کا وُہ چَمَکتا تاَرا ہو
رَبّ نے جِس کو چَاہَت سے
پیار سے اُتارا ہو
تمُ اگر جو پوچھو نا کیا دُعا تمہیں دُونگی
میں کہوں گی جاناں کہ
چاند اور سُورج کی
روشنی سے چَمکا کر
پھُولوں سے مُزَیَّن اِک
پیار اور مُحَبَّت کا آَشَیاں تمہارا ہو
اَمن کا گِہوارَہ ہو
اَیسا گھَر تمہارا ہو
تمُ اگر سُنَّناَ چاہو تو تمہیں سُناؤں میں
ایسی دُھن کہ جِس کا سَاز
دِل سے تار لے کر کے
ہَر اِک سُر نِکَھارا ہو
رَقص میں یہ جَہاں ساَرا ہو
تمُ اگر جو ماَنگو تو
اپنی سَانسِیں لے کر میں
نام تیرے کر دوں یوں
آنے والا ہَر اِک دَم بھی فََقط تمہارا ہو
تم اَگر جو دیکھو ناَ
میری نَظروں سے خُود کو
ایَسا گُمان پَاؤ گے
چَندا اور تاروں نے
ان حَسِین نَظَاروں نے
صَدقَہ عِشق کا تیرے ہر گَھڑی اُتَارا ہو
پُوچَھو ایسی حاَلت ہو
تو مجُھے کیسے جَانا
اَوَر۔۔ تیر ا غیَروں کی
اِلتِفاَت گَوَارہ ہو
کیوں نا پاگلوں جیسا
حال پِھر ہمارا ہو
تمُ اگر جو پُوچھو نا
مجھ سے یہ کہ کیا ہو تم
میں کہوں گی تم جانان
آسْمانِ اُلفَت کا وُہ چَمَکتا تاَرا ہو
رَبّ نے جِس کو چَاہَت سے
پیار سے اُتارا ہو
تمُ اگر جو پوچھو نا کیا دُعا تمہیں دُونگی
میں کہوں گی جاناں کہ
چاند اور سُورج کی
روشنی سے چَمکا کر
پھُولوں سے مُزَیَّن اِک
پیار اور مُحَبَّت کا آَشَیاں تمہارا ہو
اَمن کا گِہوارَہ ہو
اَیسا گھَر تمہارا ہو
تمُ اگر سُنَّناَ چاہو تو تمہیں سُناؤں میں
ایسی دُھن کہ جِس کا سَاز
دِل سے تار لے کر کے
ہَر اِک سُر نِکَھارا ہو
رَقص میں یہ جَہاں ساَرا ہو
تمُ اگر جو ماَنگو تو
اپنی سَانسِیں لے کر میں
نام تیرے کر دوں یوں
آنے والا ہَر اِک دَم بھی فََقط تمہارا ہو
تم اَگر جو دیکھو ناَ
میری نَظروں سے خُود کو
ایَسا گُمان پَاؤ گے
چَندا اور تاروں نے
ان حَسِین نَظَاروں نے
صَدقَہ عِشق کا تیرے ہر گَھڑی اُتَارا ہو
پُوچَھو ایسی حاَلت ہو
تو مجُھے کیسے جَانا
اَوَر۔۔ تیر ا غیَروں کی
اِلتِفاَت گَوَارہ ہو
کیوں نا پاگلوں جیسا
حال پِھر ہمارا ہو
"کوئی تو ہے ناں "
"کوئی تو ہے ناں "
اداسیوں کے سبب کے بارے میں سوچنا کیا ؟
اداسیوں کا سبب کوئی ہو ! حسین تر ہے
کسی کی باتوں میں کھوئے رہنا
کسی کی یادوں میں روئے جانا
عبادتوں ہی کی شکل ٹھہری
عقیدتوں کے چراغ ہم نے جلائے کتنے ! کسے خبر ہے ؟
یہ رنج کتنے خفا تھے ہم سے، منائے کتنے ؟ کسے خبر ہے ؟
کسے خبر ہے کہ تھپکیاں اور لوریاں دے کے درد ہم نے سلائے کتنے ؟
اُسے خبر ہے ! کہ جس خاطر اُداسیوں کو گلے لگایا
اُسے خبر ہے ! کہ جس کے بارے خدا کو ہم نے بہت بتایا
بہت دعا کی
وہ جانتی ہے ! کہ جس کی خاطر خدا کے گھر میں صدا لگائی
وہ مانتی ہے ! کہ جس کی خاطر قبول رنج و الم کیے ہیں
وہ کس اذیت کو کاٹتی ہے ! مجھے خبر ہے
وہ کیسے لوگوں میں، کس طرح زیست کاٹتی ہے ! مجھے خبر ہے
مجھے خبر ہے ! وہ وقت کیسے گزارتی ہے ! مجھے خبر ہے
خموشیوں کی، اداسیوں کی وہ ماہرانی
اداس دلہن ! غموں کی ملکہ
وہ شاہزادی دکھوں کی ماری
اداس ہو کر وہ جیسے مجھ کر پکارتی ہے ! مجھے خبر ہے
تمہیں خبر ہو ! تو تم کبھی بھی اداسیوں کا سبب نہ پوچھو
تمہیں خبر ہو ! تو تم بھی میری اداسیوں کے مزار پر ننگے پاؤں آ کر دیے جلاؤ
پھر عمر بھر مسکرا نہ پاؤ ! تو کیا کرو گے ؟
سو میری مانو ! اداسیوں کا سبب نہ پوچھو
یہی ہے بہتر ! یہی بہت ہے ! بس اتنا کافی ہے
مدتوں سے جو کہہ رہا ہوں
کوئی تو ہے نا
کہ جس کی خاطر
اداس رہنے کا
شوق سا ہے
اداسیوں کے سبب کے بارے میں سوچنا کیا ؟
اداسیوں کا سبب کوئی ہو ! حسین تر ہے
کسی کی باتوں میں کھوئے رہنا
کسی کی یادوں میں روئے جانا
عبادتوں ہی کی شکل ٹھہری
عقیدتوں کے چراغ ہم نے جلائے کتنے ! کسے خبر ہے ؟
یہ رنج کتنے خفا تھے ہم سے، منائے کتنے ؟ کسے خبر ہے ؟
کسے خبر ہے کہ تھپکیاں اور لوریاں دے کے درد ہم نے سلائے کتنے ؟
اُسے خبر ہے ! کہ جس خاطر اُداسیوں کو گلے لگایا
اُسے خبر ہے ! کہ جس کے بارے خدا کو ہم نے بہت بتایا
بہت دعا کی
وہ جانتی ہے ! کہ جس کی خاطر خدا کے گھر میں صدا لگائی
وہ مانتی ہے ! کہ جس کی خاطر قبول رنج و الم کیے ہیں
وہ کس اذیت کو کاٹتی ہے ! مجھے خبر ہے
وہ کیسے لوگوں میں، کس طرح زیست کاٹتی ہے ! مجھے خبر ہے
مجھے خبر ہے ! وہ وقت کیسے گزارتی ہے ! مجھے خبر ہے
خموشیوں کی، اداسیوں کی وہ ماہرانی
اداس دلہن ! غموں کی ملکہ
وہ شاہزادی دکھوں کی ماری
اداس ہو کر وہ جیسے مجھ کر پکارتی ہے ! مجھے خبر ہے
تمہیں خبر ہو ! تو تم کبھی بھی اداسیوں کا سبب نہ پوچھو
تمہیں خبر ہو ! تو تم بھی میری اداسیوں کے مزار پر ننگے پاؤں آ کر دیے جلاؤ
پھر عمر بھر مسکرا نہ پاؤ ! تو کیا کرو گے ؟
سو میری مانو ! اداسیوں کا سبب نہ پوچھو
یہی ہے بہتر ! یہی بہت ہے ! بس اتنا کافی ہے
مدتوں سے جو کہہ رہا ہوں
کوئی تو ہے نا
کہ جس کی خاطر
اداس رہنے کا
شوق سا ہے
تمھیں چھونے کی خواہش میں
تمھیں چھونے کی خواہش میں تمھیں چھونے کی خواہش میں
نجانے ضبط کے کتنے کڑے موسم
تمہارے سامنے بیٹھے ہوئے
میں نے گذارے ہیں
مجھے معلوم ہے چھونے سے
تم کو یہ نہیں ہو گا
مرے ہاتھوں کی پوروں پر کئی
جگنو دمک اٹھیں
تمہارے لمس کی خوشبو
مری رگ رگ میں بس جائے
مگر شاید یہ ممکن ہے تمہارے لمس کو پا کر
سلگتے دل کی دھرتی پر کوئی بادل برس جائے
مگر جاناں حقیقت ہے
تمھیں میں چھو نہیں سکتا!
اگرچہ لفظ یہ میرے
تمہاری سوچ میں رہتے،
تمہارے خواب چھوتے ہیں
تمھیں میں چھو نہیں سکتا
مجھے تم سے محبت سے
کہیں زیادہ محبت ہے
میں ڈرتا ہوں کہیں چھونے
سے تم پتھر نا ہو جاؤ
میں وہ جس نے تمھیں تتلی
کے رنگوں سے سجایا ہے
میں وہ جس نے تمھیں لکھا ہے
جب بھی پھول لکھاہے
بھلا کیسے میں اس پیکر کو
چھو لوں اور ساری عمر
میں اک پتھر کی مورت کو سجا لوں
اپنے خوابو ں میں
مجھے تم سے محبت سے
کہیں زیادہ محبت ہے
تمھیں پتھر اگر کر لوں
تو خود بھی ٹوٹ جاؤ ں گا
سنو جاناں!
بھلے وہ ضبط کے
موسم کڑے ہوں ذات پر میری
تمہیں میں چھو نہیں سکتا
نجانے ضبط کے کتنے کڑے موسم
تمہارے سامنے بیٹھے ہوئے
میں نے گذارے ہیں
مجھے معلوم ہے چھونے سے
تم کو یہ نہیں ہو گا
مرے ہاتھوں کی پوروں پر کئی
جگنو دمک اٹھیں
تمہارے لمس کی خوشبو
مری رگ رگ میں بس جائے
مگر شاید یہ ممکن ہے تمہارے لمس کو پا کر
سلگتے دل کی دھرتی پر کوئی بادل برس جائے
مگر جاناں حقیقت ہے
تمھیں میں چھو نہیں سکتا!
اگرچہ لفظ یہ میرے
تمہاری سوچ میں رہتے،
تمہارے خواب چھوتے ہیں
تمھیں میں چھو نہیں سکتا
مجھے تم سے محبت سے
کہیں زیادہ محبت ہے
میں ڈرتا ہوں کہیں چھونے
سے تم پتھر نا ہو جاؤ
میں وہ جس نے تمھیں تتلی
کے رنگوں سے سجایا ہے
میں وہ جس نے تمھیں لکھا ہے
جب بھی پھول لکھاہے
بھلا کیسے میں اس پیکر کو
چھو لوں اور ساری عمر
میں اک پتھر کی مورت کو سجا لوں
اپنے خوابو ں میں
مجھے تم سے محبت سے
کہیں زیادہ محبت ہے
تمھیں پتھر اگر کر لوں
تو خود بھی ٹوٹ جاؤ ں گا
سنو جاناں!
بھلے وہ ضبط کے
موسم کڑے ہوں ذات پر میری
تمہیں میں چھو نہیں سکتا
کسی راکھ میں ہے دبا ہوا
کسی راکھ میں ہے دبا ہوا کسی شب وہ آئے جو خواب میں
اسے درد سارے ہی سونپ دوں
اسے کہہ سکوں وہ شکایتیں
جسے لہر ِ موج ِ فراق نے
تہہ ِ آب کب سے دبا دیا
یہ فصیل ِ جاں پہ سکوت سا
مجھے کھا رہا ھے کتر کتر
مرے بے خبر تجھے کیا پتا
مری سانس سے ترے درد کا
جو ہے ایک رشتہ بندھا ہوا
یہ چراغ زد میں ہواؤں کی
کسی طاق میں ہے دھرا ہوا
جو تھا خواب مری حیات کا
کسی راکھ میں ہے دبا ہوا
کسی شب تو آ مرے خواب میں
مرے ہمسفر ذرا دیکھ لے
مری شب گزیدہ نگاہ میں
تیرے بعد درد ہی رہ گئے
مری شاخ ٹوٹی ھے سوکھ کر
مرے پھول زرد ہی رہ گئے
کسی شب تو آ مرے خواب میں
مرے ہمسفر مجھے دیکھنے
اسے درد سارے ہی سونپ دوں
اسے کہہ سکوں وہ شکایتیں
جسے لہر ِ موج ِ فراق نے
تہہ ِ آب کب سے دبا دیا
یہ فصیل ِ جاں پہ سکوت سا
مجھے کھا رہا ھے کتر کتر
مرے بے خبر تجھے کیا پتا
مری سانس سے ترے درد کا
جو ہے ایک رشتہ بندھا ہوا
یہ چراغ زد میں ہواؤں کی
کسی طاق میں ہے دھرا ہوا
جو تھا خواب مری حیات کا
کسی راکھ میں ہے دبا ہوا
کسی شب تو آ مرے خواب میں
مرے ہمسفر ذرا دیکھ لے
مری شب گزیدہ نگاہ میں
تیرے بعد درد ہی رہ گئے
مری شاخ ٹوٹی ھے سوکھ کر
مرے پھول زرد ہی رہ گئے
کسی شب تو آ مرے خواب میں
مرے ہمسفر مجھے دیکھنے
نہ سکوں نہ بے قراری
نہ سکوں نہ بے قراری نہ سکت ھے ضبطِ غم کی ، نہ مجالِ اشکباری
یہ عجیب کیفیت ہے ... نہ سکوں نہ بے قراری
یہ قدم قدم بلائیں ......... یہ سوادِ کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے، جسے زندگی ھو پیاری
میری آنکھ منتظر ھے ..... کسی اور صبحِِ نو کی
یہ سحر تمہیں مبارک ، جو ھے ظلمتوں کی ماری
وھی پھول چاک دامن ، وھی رنگِ اھلِ گلشن
ابھی صرف یہ ھوا ھے ..... کہ بدل گئے شکاری
تیرے جاں فراز وعدے، مجھے کب فریب دیتے
تیرے کام آ گئی ھے ........ میری زود اعتباری
تیرا ایک ھی کرم ھے، تیرے ھر ستم پہ بھاری
غمِ دوجہاں سے تُو نے مجھے بخشی رُستگاری
جو غنی ھو ما سِوا سے ، وہ “گدا ” گدا نہیں ھے
جو اسیرِ ما سِوا ھے ، وہ غنی بھی ھے بھکاری
یہ عجیب کیفیت ہے ... نہ سکوں نہ بے قراری
یہ قدم قدم بلائیں ......... یہ سوادِ کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے، جسے زندگی ھو پیاری
میری آنکھ منتظر ھے ..... کسی اور صبحِِ نو کی
یہ سحر تمہیں مبارک ، جو ھے ظلمتوں کی ماری
وھی پھول چاک دامن ، وھی رنگِ اھلِ گلشن
ابھی صرف یہ ھوا ھے ..... کہ بدل گئے شکاری
تیرے جاں فراز وعدے، مجھے کب فریب دیتے
تیرے کام آ گئی ھے ........ میری زود اعتباری
تیرا ایک ھی کرم ھے، تیرے ھر ستم پہ بھاری
غمِ دوجہاں سے تُو نے مجھے بخشی رُستگاری
جو غنی ھو ما سِوا سے ، وہ “گدا ” گدا نہیں ھے
جو اسیرِ ما سِوا ھے ، وہ غنی بھی ھے بھکاری
Wednesday, 20 March 2019
ے موسم کی عادت گرجنا برسنا
ے موسم کی عادت گرجنا برسنا ے موسم کی عادت گرجنا برسنا کہیں خوش کرے یہ کہیں آزمائے کوئی یاد کر کے کسے رو پڑے گا یہ سوچے نہ سمجھے برستا ہی جائے برستا ہے یکساں سبھی آنگنوں میں سبھی آنگنوں میں نہ یہ مسکرائے وہاں جا کے برسے جہاں زندگی ہے یہ سب جھوٹے قصے نہ ہم کو سنائے بڑی مشکلوں سے سلایا تھا جن کو وہ ہر خواب رم جھم یہ پھر سے جگائے نئی بارشوں میں نہیں بھیگنا ہے ابھی پچھلی برکھا ہى دل کو جلائے
Monday, 18 March 2019
کنکروں کے سلسلے میں چھوڑ دوں
کنکروں کے سلسلے میں چھوڑ دوں کنکروں کے سلسلے میں چھوڑ دوں جھیل پر کچھ دائرے میں چھوڑ دوں بدگمانی رہ گئی ہے درمیاں عمر بھر کے حوصلے میں چھوڑ دوں آنکھ تو دامن بچا کر آ گئی دل تمھارے راستے میں چھوڑ دوں روگ یہ دل کا بدن تک آ گیا سوچتی ہوں اب اسے میں چھوڑ دوں زندگی ہے وہ ،مری عادت نہیں کس طرح سے پھر اسے میں چھوڑ دوں کچھ لکیریں بن رہی ہیں زیست میں کیا اسے بھی حاشیے میں چھوڑ دوں کیا کہا !اب ساتھ مشکل ہو گیا تم کہو تو راستے میں چھوڑ دوں
الف اللہ نال رتّا دل میرا
الف اللہ نال رتّا دل میرا مینوں ”ب“ دی خبر نہ کائی ”ب“ پڑھدیاں مینوں سمجھ نہ آوے لذّت الفِ دی آئی ”ع“ تے ”غ“ نوں سمجھ نہ جاناں گل الفِ سمجھائی بُلّھیا، قول الف دے پورے جیڑے دل دی کرن صفائی بلھے شاہ
Sunday, 17 March 2019
میری ﺗﺼﻮﯾﺭ
میری ﺗﺼﻮﯾﺭ میری ﺗﺼﻮﯾﺭ بنانے ﮐﯽ ﺟﻮ دھن ﮨﮯ ﺗﻢ ﮐﻭ ﮐﯿﺍ ﺍﺩﺍسی ﮐﮯ ﺧﺪ ﻭ ﺧﺎﻝ ﺑﻨﺎ ﭘﺍﺅ ﮔﮯ؟؟ ﺗﻢ ﭘﺭﻧﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺼﻮﺭ ﮨﻭ میاں ﮐﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﺒﺰۂ پامال ﺑﻨﺎ ﭘﺍﺅ ﮔﮯ۔ ۔ ۔ ؟؟ ﺳﺮ ﮐﯽ ﺩﻟﺪﻝ میں دھنسی آنکھ ﺑﻨﺎ سکتے ﮨﻭ آنکھ میں پھیلتے پاﺗﺎﻝ ﺑﻨﺎ ﭘﺍﺅ ﮔﮯ؟؟؟ ﺟﻮ ﻣﻘﺪﺭ نے میری ﺳﻤﺖ ﺍﭼﮭﺍﻻ تھا کبھی میرے ہمدم ﻭﮨﯽ ﺟﺎﻝ ﺑﻨﺎ ﭘﺍﺅ ﮔﮯ؟؟ ﻣﻞ گئیﺧﺎﮎ ﻡﯿﮟ ﺁﺧﺮ ﮐﻭ سیاہی ﺟﻦ ﮐﯽ میرے ہمدم ﻭﮦ میرے ﺑﺎﻝ ﺑﻨﺎ ﭘﺍﺅ ﮔﮯ؟؟ ﯾﮧ ﺟﻮ ﭼﮩﺭﮮ ﭘﮧ ﺧﺮﺍﺷﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺛﺒﺖ ہوئے ﯾﮧ اذیتﮐﮯ مہﻭ ﺳﺎﻝ ﺑﻨﺎ ﭘﺍﺅ ﮔﮯ؟؟ ﺯﻧﺪﮔﯽ نےﺟﻮ ﻣﺮﺍ ﺣﺎﻝ ﺑﻨﺎ ﭼﮭﻭﮌﺍ میری تصویرکاﻭﮦ ﺣﺎﻝ ﺑﻨﺎ پاﺅ ﮔﮯ؟
Saturday, 16 March 2019
Wednesday, 13 March 2019
Digging
Between my finger and my thumb The squat pin rest; snug as a gun. Under my window, a clean rasping sound When the spade sinks into gravelly ground: My father, digging. I look down Till his straining rump among the flowerbeds Bends low, comes up twenty years away Stooping in rhythm through potato drills Where he was digging. The coarse boot nestled on the lug, the shaft Against the inside knee was levered firmly. He rooted out tall tops, buried the bright edge deep To scatter new potatoes that we picked, Loving their cool hardness in our hands. By God, the old man could handle a spade. Just like his old man. My grandfather cut more turf in a day Than any other man on Toner's bog. Once I carried him milk in a bottle Corked sloppily with paper. He straightened up To drink it, then fell to right away Nicking and slicing neatly, heaving sods Over his shoulder, going down and down For the good turf. Digging. The cold smell of potato mould, the squelch and slap Of soggy peat, the curt cuts of an edge Through living roots awaken in my head. But I've no spade to follow men like them. Between my finger and my thumb The squat pen rests. I'll dig with it.
What Do Women want
I want a red dress. I want it flimsy and cheap, I want it too tight, I want to wear it until someone tears it off me. I want it sleeveless and backless, this dress, so no one has to guess what's underneath. I want to walk down the street past Thrifty's and the hardware store with all those keys glittering in the window, past Mr. and Mrs. Wong selling day-old donuts in their café, past the Guerra brothers slinging pigs from the truck and onto the dolly, hoisting the slick snouts over their shoulders. I want to walk like I'm the only woman on earth and I can have my pick. I want that red dress bad. I want it to confirm your worst fears about me, to show you how little I care about you or anything except what I want. When I find it, I'll pull that garment from its hanger like I'm choosing a body to carry me into this world, through the birth-cries and the love-cries too, and I'll wear it like bones, like skin, it'll be the goddamned dress they bury me in.
There is another sky
There is another sky, Ever serene and fair, And there is another sunshine, Though it be darkness there; Never mind faded forests, Austin, Never mind silent fields - Here is a little forest, Whose leaf is ever green; Here is a brighter garden, Where not a frost has been; In its unfading flowers I hear the bright bee hum: Prithee, my brother, Into my garden come!
Sunday, 10 March 2019
Taare Vekhan Behh jandi Aye Jhali jai
تارے ویکھن بیہہ جاندی اے جھلی جہی تارے ویکھن بیہہ جاندی اے جھلی جہی کلّم کلّی رہ جاندی اے جھلی جہی توں محرم تے توں ای غیر، پرایا ایں کیہ کج مینوں کہہ جاندی اے جھلی جہی اُس دا مکھڑا درداں رج سجایا اے دکھڑے سارے سہہ جاندی اے جھلی جہی جیڑھی گل میں سُنن میں جاواں اوہ چھڈ کے ساریاں گلّاں کہہ جاندی اے جھلّی جہی تیری یاد دی کوئل میریاں سوچاں دی کندھاں اُتّے بیہہ جاندی اے جھلی جہی چھڈ دیندی ہے جد وہ کملی ہتھ میرا راہواں دے وچ ڈیہہ جاندی اے جھلی جہی انج تے دکھڑے مُکنے دا نئیں ناں لیندے دکھاں دے نل کھیہ جاندی اے جھلّی جہی مینوں تے اوہ اگّے لائی رکھدی اے آپے پچھے رہ جاندی اے جھلّی جہی اک واری جے اداسی آ جاوے روح دے اندر بیہہ جاندی اے جھلّی جہی
Tuesday, 5 March 2019
تیڈے نین چُماں ، کونین چُماں
تیڈے نین چُماں ، کونین چُماں مَیڈے وَس ہووے میں وَس پوواں، تیڈے پندھ چُماں، تیڈے پیر چُماں تیڈے راہ دی دُھوڑ دَھمال چُماں تیڈے نین چُماں ، کونین چُماں وِچ وسدی مُونجھ ملال چُماں تیڈے رنگ چُماں،تیڈی ونگ چُماں تیڈیں پَلکیں دی پَنڑِیال چُماں تیڈے سر دا ہک ہک وال چُماں چُم ڈیکھاں سِیندھ سَیندور بھری تیکوں بَنڑ کے "باکروال" چُماں مَیڈی لُوں لُوں لُہندی لَمس تیڈا نَس نَس دے ڈیوے بال چُماں مَیڈی لُوں لُوں لَکھ لَکھ لَب ھُوون بے اَنت لَباں دے نال چُماں
Saturday, 2 March 2019
جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا
جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا بیدل لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ
جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ سورج ہوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ کاغذ کی کترنوں کو بھی کہتے ہیں لوگ پھول رنگوں کا اعتبار ہی کیا سونگھ کے بھی دیکھ ہر چند راکھ ہو کے بکھرنا ہے راہ میں جلتے ہوئے پروں سے اڑا ہوں مجھے بھی دیکھ دشمن ہے رات پھر بھی ہے دن سے ملی ہوئی صبحوں کے درمیان ہیں جو فاصلے بھی دیکھ عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ اس کی شکست ہو نہ کہیں تیری بھی شکست یہ آئنہ جو ٹوٹ گیا ہے اسے بھی دیکھ تو ہی برہنہ پا نہیں اس جلتی ریت پر تلووں میں جو ہوا کے ہیں وہ آبلے بھی دیکھ بچھتی تھیں جس کی راہ میں پھولوں کی چادریں اب اس کی خاک گھاس کے پیروں تلے بھی دیکھ کیا شاخ با ثمر ہے جو تکتا ہے فرش کو نظریں اٹھا شکیبؔ کبھی سامنے بھی دیکھ
عشق آفت ، عشق آتش
عشق آفت ، عشق آتش عشق آفت ، عشق آتش ، عشق مطلوبِ خدا عشق مجنوں ، عشق لیلٰی، عشق فریاد و صدا عشق باطن ، عشق ظاہر ، عشق تمثیلِ الٰہ عشق ساکن ، عشق جاری ، عشق ہمنام خدا عشق باقی ، عشق ساقی ، عشق معنٰئ عطا عشق فرہاد ، عشق شیریں ، عشق بارانِ شفا عشق طاقت ، عشق طلعت ، عشق تاثیرِ حیا عشق جلنا ، عشق مرنا ، عشق دردوں کی دوا عشق مالک ، عشق صاحب ، عشق انوارِ خدا عشق اوّل ، عشق آخر ، عشق ساحل باخدا
تم نہیں ہو تو ایسا لگتا ہے
تم نہیں ہو تو ایسا لگتا ہے تم نہیں ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے ویراں ہو رہ گزارِحیات جیسے خوابوں کے رنگ پھیکے ہوں جیسے لفظوں سے موت رِستی ہو جیسے سانسوں کے تار بکھرے ہوں جیسے نو حہ کناں ہو صبح چمن تم نہیں ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے خوشبو نہیں ہو کلیوں میں جیسے سُونا پڑا ہو شہرِ دل جیسے کچھ بھی نہیں ہو گلیوں میں جیسے خوشیوں سے دشمنی ہو جائے جیسے جذبوں سے آشنائی نہ ہو تم نہیں ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے اک عمر کی مسافت پر بات کچھ بھی سمجھ نہ آئی ہو جیسے چپ چپ ہوں آرزو کے شجر جیسے رک رک کے سانس چلتی ہو جیسے بے نام ہو دعا کا سفر جیسے قسطوں میں عمر کٹتی ہو تم نہیں ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے اک خوف کے جزیرے میں کوئی آواز دے کے چھپ جائے جیسے ہنستے ہوئے اچانک ہی غم کی پروا سے آنکھ بھر جائے تم نہیں ہو تو ایسا لگتا ہے
Friday, 1 March 2019
تتلیوں کی بے چینی
تتلیوں کی بے چینی تتلیوں کی بے چینی آ بسی ہے پاؤں میں ایک پَل کو چھاؤں میں اور پھر ہَواؤں میں جن کے کھیت اور آنگن ایک ساتھ اُجڑتے ہیں کیسے حوصلے ہوں گے اُن غریب ماؤں میں صورتِ رفو کرتے سر نہ یوں کھُلا رکھتے جوڑ کب نہیں ہوتے ماؤں کی رداؤں میں آنسوؤں میں کٹ کٹ کر کتنے خواب گرتے ہیں اِک جوان کی میّت آ رہی ہے گاؤں میں اب تو ٹوٹی کشتی بھی آگ سے بچاتے ہیں ہاں کبھی تھا نام اپنا بخت آزماؤں میں ابر کی طرح ہے وہ یوں نہ چھُو سکوں لیکن ہاتھ جب بھی پھیلائے آ گیا دعاؤں میں جگنوؤں کی شمعیں بھی راستے میں روشن ہیں سانپ ہی نہیں ہوتے ذات کی گپھاؤں میں صرف اِس تکبُّر میں اُس نے مجھ کو جیتا تھا ذکر ہو نہ اس کا بھی کل کو نا رساؤں میں کوچ کی تمنّا میں پاؤں تھک گئے لیکن سمت طے نہیں ہوتی پیارے رہنماؤں میں اپنی غم گُساری کو مشتہر نہیں کرتے اِتنا ظرف ہوتا ہے درد آشناؤں میں اب تو ہجر کے دُکھ میں ساری عُمر جلنا ہے پہلے کیا پناہیں تھیں مہرباں چتاؤں میں ساز و رخت بھجوا دیں حدِّ شہر سے باہر پھر سُرنگ ڈالیں گے ہم محل سراؤں میں
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
خون اپنا ہو یا پرایا ہو نسلِ آدم کا خون ہے آخر جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں امنِ عالم کا خون ہے آخر بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے زیست فاقوں سے تلملاتی ہے ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ زندگی میّتوں پہ روتی ہے جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی آگ اور خون آج بخشے گی بھوک اور احتیاج کل دے گی اس لئے اے شریف انسانو! جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں شمع جلتی رہے تو بہتر ہے برتری کے ثبوت کی خاطر خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے گھر کی تاریکیاں مٹانے کو گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں صرف میدانِ کشت وخوں ہی نہیں حاصلِ زندگی خِرد بھی ہے حاصلِ زندگی جنوں ہی نہیں آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں فکر کی روشنی کو عام کریں امن کو جن سے تقویت پہنچے ایسی جنگوں کا اہتمام کریں جنگ، وحشت سے بربریّت سے امن، تہذیب و ارتقا کے لئے جنگ، مرگ آفریں سیاست سے امن، انسان کی بقا کے لئے جنگ، افلاس اور غلامی سے امن، بہتر نظام کی خاطر جنگ، بھٹکی ہوئی قیادت سے امن، بے بس عوام کی خاطر جنگ، سرمائے کے تسلّط سے امن، جمہور کی خوشی کے لئے جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف امن، پُر امن زندگی کے لئے (ساحر لدھیانوی)
Subscribe to:
Posts (Atom)