کنکروں کے سلسلے میں چھوڑ دوں کنکروں کے سلسلے میں چھوڑ دوں جھیل پر کچھ دائرے میں چھوڑ دوں بدگمانی رہ گئی ہے درمیاں عمر بھر کے حوصلے میں چھوڑ دوں آنکھ تو دامن بچا کر آ گئی دل تمھارے راستے میں چھوڑ دوں روگ یہ دل کا بدن تک آ گیا سوچتی ہوں اب اسے میں چھوڑ دوں زندگی ہے وہ ،مری عادت نہیں کس طرح سے پھر اسے میں چھوڑ دوں کچھ لکیریں بن رہی ہیں زیست میں کیا اسے بھی حاشیے میں چھوڑ دوں کیا کہا !اب ساتھ مشکل ہو گیا تم کہو تو راستے میں چھوڑ دوں
No comments:
Post a Comment