Friday, 1 March 2019
تتلیوں کی بے چینی
تتلیوں کی بے چینی تتلیوں کی بے چینی آ بسی ہے پاؤں میں ایک پَل کو چھاؤں میں اور پھر ہَواؤں میں جن کے کھیت اور آنگن ایک ساتھ اُجڑتے ہیں کیسے حوصلے ہوں گے اُن غریب ماؤں میں صورتِ رفو کرتے سر نہ یوں کھُلا رکھتے جوڑ کب نہیں ہوتے ماؤں کی رداؤں میں آنسوؤں میں کٹ کٹ کر کتنے خواب گرتے ہیں اِک جوان کی میّت آ رہی ہے گاؤں میں اب تو ٹوٹی کشتی بھی آگ سے بچاتے ہیں ہاں کبھی تھا نام اپنا بخت آزماؤں میں ابر کی طرح ہے وہ یوں نہ چھُو سکوں لیکن ہاتھ جب بھی پھیلائے آ گیا دعاؤں میں جگنوؤں کی شمعیں بھی راستے میں روشن ہیں سانپ ہی نہیں ہوتے ذات کی گپھاؤں میں صرف اِس تکبُّر میں اُس نے مجھ کو جیتا تھا ذکر ہو نہ اس کا بھی کل کو نا رساؤں میں کوچ کی تمنّا میں پاؤں تھک گئے لیکن سمت طے نہیں ہوتی پیارے رہنماؤں میں اپنی غم گُساری کو مشتہر نہیں کرتے اِتنا ظرف ہوتا ہے درد آشناؤں میں اب تو ہجر کے دُکھ میں ساری عُمر جلنا ہے پہلے کیا پناہیں تھیں مہرباں چتاؤں میں ساز و رخت بھجوا دیں حدِّ شہر سے باہر پھر سُرنگ ڈالیں گے ہم محل سراؤں میں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment