کسی راکھ میں ہے دبا ہوا کسی شب وہ آئے جو خواب میں
اسے درد سارے ہی سونپ دوں
اسے کہہ سکوں وہ شکایتیں
جسے لہر ِ موج ِ فراق نے
تہہ ِ آب کب سے دبا دیا
یہ فصیل ِ جاں پہ سکوت سا
مجھے کھا رہا ھے کتر کتر
مرے بے خبر تجھے کیا پتا
مری سانس سے ترے درد کا
جو ہے ایک رشتہ بندھا ہوا
یہ چراغ زد میں ہواؤں کی
کسی طاق میں ہے دھرا ہوا
جو تھا خواب مری حیات کا
کسی راکھ میں ہے دبا ہوا
کسی شب تو آ مرے خواب میں
مرے ہمسفر ذرا دیکھ لے
مری شب گزیدہ نگاہ میں
تیرے بعد درد ہی رہ گئے
مری شاخ ٹوٹی ھے سوکھ کر
مرے پھول زرد ہی رہ گئے
کسی شب تو آ مرے خواب میں
مرے ہمسفر مجھے دیکھنے
No comments:
Post a Comment