Saturday, 2 March 2019
جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ
جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ سورج ہوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ کاغذ کی کترنوں کو بھی کہتے ہیں لوگ پھول رنگوں کا اعتبار ہی کیا سونگھ کے بھی دیکھ ہر چند راکھ ہو کے بکھرنا ہے راہ میں جلتے ہوئے پروں سے اڑا ہوں مجھے بھی دیکھ دشمن ہے رات پھر بھی ہے دن سے ملی ہوئی صبحوں کے درمیان ہیں جو فاصلے بھی دیکھ عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ اس کی شکست ہو نہ کہیں تیری بھی شکست یہ آئنہ جو ٹوٹ گیا ہے اسے بھی دیکھ تو ہی برہنہ پا نہیں اس جلتی ریت پر تلووں میں جو ہوا کے ہیں وہ آبلے بھی دیکھ بچھتی تھیں جس کی راہ میں پھولوں کی چادریں اب اس کی خاک گھاس کے پیروں تلے بھی دیکھ کیا شاخ با ثمر ہے جو تکتا ہے فرش کو نظریں اٹھا شکیبؔ کبھی سامنے بھی دیکھ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment